تحریک جنگ آزادی اور مسلم علما کا کردار  (قسط اول)

سنہ عیسوی 1600 میں  جہانگیر بادشاہ کا دور تھا جہانگیر بادشاہ کےدور سے ہی انگریزوں کا دخول ہندوستان کی سرحدوں میں شروع ہوگیا تھا یہ لوگ بغرض تجارت ہندوستان آیا کرتےتھے مگر کس کو کیا معلوم تھا ؟ کہ حیلہ تجارت سے یہ لوگ ہندوستان پر قابض ہونا چاہتےہیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ عیار اور شاطر قسم کے لوگوں نے ہندستان کی بہت ساری ریاستوں پر حملہ کرکے اپنا قبضہ جمالیا مگر ابھی ان کی حسرتیں ختم نہیں ہوٸی تھی کیونکہ ان کو در اصل دارالحکومت دہلی پر قابض ہوناتھا لیکن یہاں قابض ہونے میں کچھ رکاوٹیں در پیش آرہی تھی ، حضرت ٹیپو سلطان شہید علیہ الرحمہ نواب سراج الدولہ جیسے بےشمار شجاع وغیرخاٸف  حضرات سامنے آکر ان کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دےرہےتھے ان کو کچھ ایسے مسلمانوں کی ضرورت تھی کہ جو مذکورہ مقدس شخصیات کو زیر کرنے میں ان کی بھرپور حمایت کریں آخرکار کچھ ایسے ضمیر فروش نام نہاد مسلمان مل ہی گٸے اور ایک دن وہ آیا کہ ان نام نہاد کٹ ملے اور غداران وطن کی وجہ سے انگریز دہلی دارالحکومت والمملکت پر بھی قابض ہوگٸے ۔ 

پھر آہستہ آہستہ شاطر وچالاک انگریز ہندی حاکم وراجاٶں ونوابوں کو آپس میں پھوٹ ڈلوانااور ایک کو دوسرے کےخلاف بھڑکانا شروع کیا اور جب ہندی نوابوں وراجاٶں کی حکومت وطاقت  ایک دوسرے سے ہی جنگ کرنے کی وجہ سےکمزور وناتواں ہوتی چلی گٸی تو یہ مکار وعیار جماعت موقع غنیمت سمجھتی ہوٸی  دھیرے دھیرے اوردیگر ریاستوں پر بھی قابض ہوگٸی  اور پھر وہ سیاہ دن دیکھنے کو ملا کہ جس کی کبھی کسی کو امید بھی نہ تھی کہ سنہ عیسوی 1856 میں پورے ہندوستان پر ان انگریزوں نے قبضہ کرلیا ۔  

انگریزوں کی حکومت آنےکےبعد چند ایسے قوانین بناٸےگٸے کہ جن کی وجہ سے لوگوں میں کافی بے قراری بےسکونی پھیل گٸی اور لوگ بھکمری کا شکار ہونے لگے وہ چند قوانین وضوابط کیاتھے ان تمام چیزوں کو امام المنطق والفلسفہ علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الثورہ الہندیہ میں بالتفصیل بیان فرمایا ہے کتاب چونکہ عربی زبان میں ہے اس لیے ان کا خلاصہ ولب لباب پیش کیا جاتا ہے ۔ 

قانون اول ۔ مدارس بند کیے جاٸیں اسکول وکالج کا افتتاح کیاجاٸے اور تمام اسکول وکالج انگریزی زیر حکومت ہو اور تعلیم صرف اور صرف ہمارے مذھب کی دی جاٸے۔ 

قانون ثانی ۔ کوٸی بھی شخص براہ راست اناج غلے وغیرہ کسی کو فروخت نہیں کرسکتا اولا ہم کو فروخت کریں پھر ہم جسے چاہیں اسے فروخت کریں گے ۔ 

اس قانون کو عاٸد کرنے کی چاہت بھی یہی تھی کہ لوگ جب اپنا اناج خود کسی کو نہیں فروخت کرسکیں گے  تو پھرخود ہمیں دینے کےلیے تیار یوجاٸیں گے اور ہم اپنی مرضی کےمطابق جتنی چاہیں اتنی اس کی قیمت دیں گے جس کی وجہ سے لوگ بھوگ اور طرح طرح کی پریشانیوں کا شکار ہوں گے اور ان چیزوں کی وجہ سے وہ اپنا مذھب ترک کرکے ہمارا مذھب اختیار کرنے کو راضی ہوجاٸیں گے اور اس طرح ہمارے مذھب کی تشہیر ہوتی رہےگی ۔ 

قانون ثالث ۔ مسلمان عورتیں بغیر کسی حجاب کے باہر نکلیں نقاب وغیرہ نہ لگاٸیں ورنہ سخت سے سخت سزا کا مستحق ہوں گی

قانون رابع ۔ کوٸی بھی مسلمان ختنہ نہ کراٸیں ورنہ مجرم وملزم ثابت ہوگا ۔ 

ان تمام قوانین کے علاوہ اور دیگر قوانین بھی تھی جس کی وجہ سے خاص مسلمانوں کو کافی تکالیف وآلام کا سامنا کرنا پڑرہاتھا ایسے میں ضرورت تھی کہ کوٸی آواز بلند کرے اور ان تمام حرام النسل اولادوں کو  زیر خاک کرے۔ 

 آخرکار صف علما میں سے  مجاھد جنگ آزادی بطل حریت امام المنطق والفلسفہ استاذمطلق علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ علم حق بلند کرتےہوٸے سنہ عیسوی 1857 میں دہلی کی شاہی جامع مسجد پہنچے اور آپ نے پرزور خطاب کیا اور لوگوں کو جہاد کی فضیلت سے آگاہ وباخبر کیا اور بعد نماز جمعہ آپ نے خود ایک استفتا انگریزی حکومت کےخلاف رقم فرماکر اس وقت کےجید واکابرعلما ومفتیان کرام  کے پاس ارسال فرمایا ۔ 

علامہ صاحب کے استفتا کو اس وقت کے چند اکابر علما ومفتیان نے دیکھ کر فتوی صادر فرمایا کہ اس وقت ہم سب کو انگریزوں سے جہاد کرنا فرض ہے ۔ 

کانپ اٹھا اس کےفتووں سے فرنگی کاسامراج
جس کےنعروں سے ہوٸے بیدار شیران وطن ۔ 
 
فتوی آنے کے بعد اس وقت کے اخباروں میں اس فتوی کی نشر واشاعت کی گٸی جس کی  وجہ سے اس وقت کےعلما وعوام  نے کافی ہمت وجذبہ دکھایا اور سب کے سب بہادر شاہ ظفر کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع  ہوگٸے اور پھر یہی سے جنگ کی شروعات ہوٸی ۔ 

اس آزادی کی جنگ میں (جس کو بغاوت کا نام دیا جاتا ہے ) علامہ صاحب اور دیگر علما حقہ وعوام کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس ناکامی کی وجہ علامہ صاحب نے  اپنے بعض عربی قصاٸد میں بیان فرمایا ہے ۔ 
جس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ بعض بدانتظامی اور بعض اپنوں کی بےوفاٸیوں اور جفا شعاریوں کی وجہ سے ناکامی ہوٸی  ۔ پھر انگریر دہلی میں 14 ستمبر 1857 کو مکمل طور پر قابض ہوگٸے اور ظلم وستم کا بازار گرم ہوا ۔ 

اس ناکامی جنگ کے بعد انگریزوں نے دہلی پر کچھ اس طرح قبضہ کیا کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کا رہنا بھی دہلی میں مشکل ہوگیا اور آپ کسی طرح خفیہ طور پر اپنی تمام تر کتب اور دیگر غیر معمولی اشیا کو دہلی میں ہی چھوڑ کر اپنےپورے اہل وعیال کےساتھ  اپنی جاٸے ولادت شہر خیرآباد کےلیے روانہ ہوجاتےہیں ۔ دہلی سے روانگی کا ذکر آپ خود اس طرح کرتےہیں : 
بعد ترک مالی من کتبی ونشبی ومالی مایکفی لنقل احمالی واخذت للنجا ٕ سبیلا متوکلا علی اللہ وکفی باللہ وکیلا ۔ 
مال واسباب چھوڑ کر بار برداری کا انتظام نہ ہونےکی وجہ سے خدا پر بھروسہ کرکے اہل وعیال کےساتھ نکل کھڑا ہوا ۔ 

دہلی سے خیرآباد تک کےسفر میں کس قسم کی آپ کو تکلیفیں پہنچی اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ دہلی سے خیر آباد پہنچنے میں آپ کو دو مہینہ کا لمبا عرصہ لگ گیا حالانکہ دہلی سے خیر آباد تک کی مسافت کوٸی زیادہ مسافت نہیں ہے ۔ مگر مشکلیں اتنی تھی کہ اتنا قریبی سفر بعیدی میں بدل گیا ۔ 
جب علامہ فضل حق علیہ الرحمہ اپنے اہل وعیال کےساتھ خیر آباد پہنچے تو آپ کے خیرآباد پہنچتےہی آپ پر مقدمہ چلا گیا چونکہ دیگر علما سے فتوی لینے کا کام آپ ہی نے انجام دیا تھا جب آپ کو کورٹ میں پیش کیا گیا تو کچھ محبین ومقربین حضرات نے بہر صورت کوشش کی کہ آپ اپنی بات سے مکڑ جاٸیں اور یہ کہدیں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے ۔ اس کورٹ کےجو جج تھے وہ بھی یہی تمنا رکھتےتھے کہ علامہ کسی طرح اپنی بات سے پلٹ جاٸے کیونکہ یہ جج بھی آپ کے تلامذہ میں سے تھے اس وجہ سے وہ آپ کی بڑی قدر کرتے ۔  مگریہ مرد قلندر شیر اہل سنت کب جھوٹ کا سہارا لےکر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے چنانچہ آپ نے اس نازک مرحلے میں بھی صدق کا دامن اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور اپنی بات سے ذراسی بھی انحراف نہیں فرمایا اور کہ ڈالا کہ میں نے ہی فتوی دیا ہے اور دیگر علما سے فتوی جہاد لینےکاکام بھی میں نےکیا اور اسے نشر کیا ہے اس کے عوض جو بھی مجھے سزا ملے وہ میں قبول کروں گا ۔ 

زبان اہل دل سے جو بات باہرنکلتی ہے 
تو لگتا ہے دلوں پر حیدری شمشیر چلتی ہے 

پھر آپ کے اقرار کرنے پر آپ کو جزیرہ انڈمان بھیج دیا جاتاہے (کالا پانی ) وہاں آپ پرکس طرح کے مظالم ڈھاٸے جاتےہیں  آپ اپنی کتاب میں اس کو خود ہی کچھ اس طرح بیان کرتےہیں :  
صفاٸی کی خدمت پر مجھے مامور کیا گیا ٹوکریاں لے لیتا اور کوڑا کرکٹ جمع کرکے پھینک آتا میرے کپڑے اتار لیے گیے مجھے تہبند اور کملی دےدی گٸی پہننے کےلیے میرے پاٶں میں جوتا بھی نہیں اور مجھ سے  سخت غلیظ سے غلیظ ترکام کروایا جاتا ۔ 

یہ تو میں نے چند مظالم علامہ ہی کی زبانی  اختصارا بیان کیے  ورنہ کتب تاریخ میں اور بھی ڈھاٸےجانےوالے مظالم ملتےہیں جس کو بیان کرنے سے زبان قاصر ہے ۔ 

پھر ایک وقت آیا جب علامہ کے صاجزادے رہاٸی کا عرضی داخل کرتےہیں اور رہاٸی مل جاتی ہے صاجزادہ اپنے اباحضور امام الوقت کو لینے کے لیے انڈمان روانہ ہوجاتےہیں جہاز سے اترتےہی ایک جنازہ پر نظرپڑتی ہے قریب جانے کےبعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنازہ اپنے ہی والد ماجد علامہ فضل حق خیرآبادی کا جنازہ ہے ۔ 

اس طرح علم وفضل کا یہ ستارہ 12 صفرالمظفر 1278 ھ / 19 اگست 1861 ٕ کو عالم فانی سے عالم بقا کی جانب منتقل ہوجاتاہے ۔ 
لیکن اللہ کریم نے یہ مقبولیت بخشی ہے کہ آج بھی علامہ کا مزار مرجع انام اور زیارت گاہ خاص وعام ہے ۔ 

علامہ موصوف کی تاریخ وفات کو غالب بڑے پیارے نرالےانداز میں فارسی اشعار سے مرصع کرتےہیں : 

اے دریغا قدوہ ارباب وفضل ۔ کرو سوٸے جنت المأوی خرام ۔ 
چو ارادت از پٸے کسب شرف ۔ جست سال آں عالی مقام ۔ 
چہرہ ہستی خراشیدم نخست ۔ تابناٸے تخرجہ گرد وتمام ۔

تحریر ۔ محمد ندیم اخترقادری غفرلہ چھ مٹیا (مدرس شمس العلماء عربک کالج توڈار منگلور) 

 حسب فرمائش : مفتی قوم وملت استاذالعلما علامہ مفتی رفیق احمد ھدوی کولاری 
پرنسپل شمس العلما عربک کالج توڈار منگلور ۔ 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter