بے خطر کود پڑا آتش ہنود (نمرود) میں عشق

میں نے بہت پہلے کسی کتاب میں(غالبا تاریخ نجد و حجاز میں)پڑھا تھا کہ سقوط غرناطہ سے قبل عیسائی جرنیل نے ایک دن ایک نیم پاگل کو بتول رسول حضرت فاطمہ علیہا السلام کو گالی بکنے کے لیے (العیاذ باللہ) غرناطہ کے ایک مسلم بھیڑ بھاڑ والے چوراہے پر کھڑا کر دیا۔وہ گالیاں دیتا رہا لوگ آتے جاتے رہے کسی نے بھی اسے نہ روکا نہ ٹوکا۔تب اس عیسائی جرنیل نے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ چھیڑی جاۓ۔کیوں کہ ان کے دل سے نبی و آل نبی کے ناموس و عزت کی خاطر مرنے مارنے کا جذبہ نکل چکا ہے۔اس میں کیا عجب ہے کہ ٹھیک وہی صورت حال آج ہم فیس کر رہے ہیں۔وہاں گالی باز ایک پاگل تھا مگر ابن عربی کے دیش میں ورودھ کرنے والا کوئی کھڑا نہیں ہوا۔یہاں تو ایک شاطر دماغ دنگائی پنڈت گالیاں بک رہا ہے۔ایسے میں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو تو ہمیں بلا دریغ اپنی غیرت ایمانی کا جنازہ پڑھ لینا چاہیے۔کیا  ہم اندلس جیسا ماحول چاہتے ہیں؟ یہ دل دینے کی باتیں بہت ہوئیں۔اب سر دینے کی باری ہے۔فنا بلند شہری کے خیال میں 

اے فنا عشق کا دستور تجھے کیا معلوم 
عشق میں دل ہی نہیں، سر بھی دیئے جاتے ہیں 

رومانی عشق میں جان دینا آج کل بہت عام ہے۔جب کہ یہ ایک غیر اخلاقی غیر شرعی و غیر قانونی فعل ہے اور سماجی اسٹیٹس کے خلاف بھی۔جب محبوب کو محبوبہ کا ہجر ستم شعار ستاتا ہے۔وصلت کا کوئی سراغ نہیں دکھتا۔ملن کا جاں بخش کیف و سرور دسترس سے باہر ہوجاتا ہے اور کوئی بس نہیں چلتا تو بے چارہ محبوب پرکٹے پرندے کی طرح پھڑپھڑاتا رہتا ہے۔غم فراق حد سے سوا ہوتا ہے تو  جان دینے میں بھی دریغ نہیں کرتا۔یہ دنیا کے فانی و بے ثبات عشق کا خمار ہے۔اگر عشق حقیقی ہوجاۓ۔کسی پر عشق رسالت کا بلالی و خبیبی رنگ چڑھ جاۓ تو اس کا حال اہل خرد کی فہم و ادراک کی حدوں سے سوا ہی ہوگا۔سچ ہے عشق جنوں پیشہ کو خرد والے کب سمجھ پاتے ہیں۔یہاں ایک بات اہم ہے کہ عشق میں جان دینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا جان لینا آسان ہے۔جس نے رسول کو جان لیا ہے وہ ہنستے ہنستے جان دینے کو تیار رہتا ہے۔دفاع ناموس رسالت ایک مومن کی زندگی کا مہنگا اثاثہ ہے۔

​خوف کہتا ہے کہ پثرب کی طرف تنہا نہ چل
شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے بےباکانہ چل 
گو سلامت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے
عشق کی لذت مگر خطروں کی جاں کاہی میں ہے

آج ہماری مذہبی و اخلاقی ذمے داری ہے کہ ہم کسی عاشق زار سے یہ دلیل نہ مانگیں کہ مباہلے کا حق آپ کو کس نے دیا،اس اگنی پرکشا " کا ثبوت شرعی کیا ہے،کیا آپ معیار ایمان ہیں، کیا آپ نے علما و مشائخ سے مشورہ کیا،  وغیرہ وغیرہ۔حالات کہتے ہیں کہ آج بس اتنا لازم ہے کہ مفتی سلمان ازہری نے جو جگر دکھایا ہے اس کی قدر کی جانی چاہیے۔انہیں مبارک دینا چاہیے۔وہ ہماری قلبی تحسین و آفرین کے ناصرف مستحق ہیں بلکہ ان کے حق میں ہمیں دل کو خالص کرکے خدا پر یقین جما کر دعا کرنی چاہیے۔اگر ہمارے اندر ناموس رسالت کا کچھ بھی پاس بچا ہے تو دعاۓ تضرع و خفیہ کا رنگ چڑھا کر دعا کرنی چاہیے۔ہر نماز میں ان کی سلامتی اور کامیابی کی دعا مانگنی چاپیے۔
مگر حیرت اور ستم کی بات ہے کہ ہمارے اندر کے لوگ کیسی کیسی منفی پوسٹ و تحریر لکھ رہے ہیں۔ابھی ایک مولانا کی تحریر پڑھی دل کو بہت تکلیف ہوئی۔یہ سوچ کر دل بیمار اور بھی رنجیدہ ہو گیا کہ آخر ہم لوگ کس مٹی کے بنے ہیں ایسے وقت میں بھی ہم میں سے کچھ لوگ منفیات پروسنے، گروہ بندی پھیلانے سے باز نہیں آتے۔ایسے آر پار کی سچوئیشن میں بھی اپنوں پر بے جا تنقید و تنقیص کر کے ان کی مورال ڈاؤن کیا جارہا ہے۔ان کی ہمت و جرأت پر سوال کھڑے کیے جارہے ہیں۔ایک وارفتۂ عشق رسالت نے سودا کر لیا ہے تو کر لیا ہے۔اب پرواہ کسے ہے؟ تعجب ہے کہ عقل والے نبی پر مرنے کی دلیلیں مانگتے ہیں۔ عشق تو آخر عشق ہے بنا سوچے سمجھے ہی نثار جاتا ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق 
عقل ہے محو تماشاۓ لب بام ابھی 

آپ یقین مانیں کہ یہ لوگ (مخالفین و معترضین مباہلہ)اگر زمانۂ کربلا میں ہوتے تو تب بھی امام پاک کے ایکشن پر سوال کھڑے کرتے۔امام کو ہی کوستے۔امام کے رد عمل پر تراش خراش کرتے ہوۓ کہتے کہ جب سارا زمانہ یزید کی طرف تھا تو انہیں کیا ضرورت تھی تنہا لڑائی لینے کی بھر پریوار لے کر نینوا جانے کی۔اگر یہ لوگ زمانۂ رسالت میں ہوتے تو رجیع کے قتیل حضرت خبیب کی شہادت کا قصہ سن کر کہتے کہ جب شریعت نے حرام کھاکر و کفر بک کر جان بچانے کی چھوٹ دے رکھی ہے تو ان کو ایسا کر کے نکل آنا چاہیے تھا۔مگر ان عقلیت پسندوں کو کون سمجھاۓ کہ عشق کبھی بھی شریعت کی دی گئی رخصت و عزیمت کا سہارا لے کر جان و مال نہیں بچاتا۔آپ سوچیں کہ زید ناموس رسالت پر مرنا چاہتا ہے تو کیا اس کے لیے ارباب بست و کشاد سے اجازت لینی ہوگی؟ یہ کتنی برہمنیت زدہ بات ہے کہ کسی کو نبی کے نام پر جان دینے کے لیے بھی اہل خانقاہ کی پرمیشن درکار ہے۔میں ذمہ داری سے یہ بات کہ سکتا ہوں کہ وہی کام اگر مخالفین و معترضین  کے مرشد گرامی و ممدوح باوقار نے کیا ہوتا تو آج تعریف و تحسین میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے جاتے۔قرآن و حدیث سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر دلیلیں لائی جاتیں۔فضائل شمار کرائے جاتے۔

آخری بات 
ناشران منفیات و عاملان بکواسات سے درد مندانہ اپیل ہے کہ آپ اپنی بقراطی و سقراطی پھر کبھی جھاڑ لیجئے گا۔تھوڑے دنوں کے لیے اپنے افلاطونی و جالینوسی مزاج کو ٹھنڈا رکھیں۔ہر جگہ زیادہ عقل کے گھوڑے نہ دوڑائیں۔منطق و فلسفہ بگھارنے کے لیے کوئی اور موضوع ڈھونڈ لیں.فداۓ رسالت کے اس دلیرانہ چیلنج (مباہلے) کو معاف رکھیں۔امت کے اور بھی اہم ترین مسائل حل طلب ہیں انہیں زیر غور لائیں۔مباہلے کا مسئلہ بے چارے سلمان ازہری کے لیے چھوڑ دیں۔آپ میری تحریر کو جذباتیت کا نام دے سکتے ہیں مگر کیا کریں، بن جذبات کے ہمارا عشق و ایمان مکمل بھی نہیں ہوتا۔ملت پر اتنی مہربانی کریں۔آج امتحان آتش کے ایک چیلنج بھر سے کفر و ہنود کی دھرتی میں سکتہ آگیا ہے۔ایک طرح کا خوف چھانے لگا ہے۔کیا آپ محسوس نہیں کرتے؟؟؟
علامہ اقبال کے لفظوں میں 

تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

مشتاق نوری 
۱۷؍اپریل ۲۰۲۱ء

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter