بابائے جنگ آزادی حضرت مجنوں شاہ علیہ الرحمہ
آزادی کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن و فکر میں ہندوستان کا وہ منظر گردش کرنے لگتا ہے.جس کو یاد کرتے ہی روح کانپ جاتی ہے.وہ قیدو بند کی صعوبتیں ،وہ لوٹا ماری ،وہ خون خرابہ ،بے گناہ دیش واسیوں کو پھانسی پر چڑھادینا وغیرہ وغیرہ اس طرح دردناک مظالم کی داستانوں سے پوری تاریخ بھری پڑی ہے !اس وقت ایک ایسا ظلم کا ماحول تھا کہ جس کو سن کر آنکھیں بے ساختہ اشکبار ہو جاتی ہیں! وطنِ عزیز میں ایک ایسا وقت آیا کہ ہمارے ملک کے جانباز سپاہی انگریز ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی جان کی بازی لگاکر ان گورے ظالموں اور غاصبوں کو اس ملک سے بھاگنے پر مجبور کردیا. آج جو ہم آزادی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں یہ انہیں مجاہدین آزادی کی قربانیوں کا نتیجہ ہے اور آج ہم ایسے ہی جانباز سورماؤں کی قربانیوں کے صدقے میں ہی جشن یوم آزادی منارہے ہیں.انہیں مجاہدین آزادی میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کی قربانیاں آب زر سے لکهنے کے لائق ہیں۔لیکن افسوس صد افسوس !ان کی قربانیوں کے تذکروں سےتاریخ آزادی کے اوراق خالی نظر آتے ہیں.جن کو انگریزوں نے تو برٹش حکومت کا باغی اور زبردست دشمن مانا اور لکهامگر ہندوستانی رائٹرس ان کے نام پر نہ جانیں کیوں پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں؟انہیں ناموں میں ایک نام ہے حضرت بابا مجنوں شاہ ملنگ علیہ الرحمہ کا ہے جنہوں نے 1763ء میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر فرنگی سرکار سے وطن کی آزادی کے لئے جنگ کی اور جامِ شہادت نوش کی ۔
حضرت مجنوں شاہ علیہ الرحمہ کا مختصر تعارف :
نقوش میوات 1992ء کے اکتوبر کے شمارے میں پروفیسر سید محمد سلیم رقمطراز ہیں.کہ نواب زادی عبدالعلی نے جنرل ایشیاٹک سوسائیٹی 1903 کے شمارے میں بابا مجنوں شاہ اور انکے قلندر صفات فقراء کا حال اس طرح درج کیا ہے.یہ لوگ لمبے لمبے بال بڑھا لیتے ہیں رنگین کپڑے پہنتے ہیں لوہے کے چمٹے دست پناہ ہاتھوں میں رکھتے ہیں.یہ لوگ عام طور پر کچے چاول گھی اور دودھ پر گزارہ کرتے ہیں ,گوشت اور مچھلی نہیں کھاتے.اور شادی نہیں کرتے بلکہ نہنگ کہلاتے ہیں.سفر میں ایک جھنڈا اٹھاے رہتے ہیں جس پر مچھلی بنی ہوئ ہوتی ہے.ہمیشہ ایک گروہ اور ایک دستے کی صورت میں سفر کرتے ہیں.انکا لقب برہنہ ہے.بصری سلسلے کی شاخ طیفوریہ(مداریہ) سے انکا تعلق ہے جسکو شاہ مدار نے ہندوستان میں رائج کیا تھا.عوامی سطح پر جنگ پالاسی کے بعد مزاحمت کاروں اور انگریزوں کے ساتھ پنجہ آزمائ کا ایک سلسلہ ملتا ہے.جس میں ہندو بھی ہیں مسلمان بھی. اور مسلمانوں میں علماء بھی ہیں اور عوام بھی .پہاڑی قبائل اور سپاہیوں کی تحریک 1733ء فقیروں کے مجنوں شاہ ملنگ کی قیادت میں انگریزوں پرحملے 1776ء یہ سلسلہ 1822ء تک جاری رہااور فقیر مصلح ہوکر, کرم علی شاہ ,چراغ علی شاہ ,مومن شاہ ,وغیرہ کی قیادت میں انگریزوں کے لئے درد سر رہے.
فرائضی تحریک جسکو حاجی شریعت اللہ نے 1781ء میں شروع کیا تھا 1860ء تک جاری رہی یہ بنیادی طور پر کسانوں کی تحریک تھی" جس کوجاگ اٹھا کسان "کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے.جس کی بہت بڑی اکثریت مسلم کسانوں پرمشتمل تھی.اس سے متاثر تیتونظام کی 1831ء کی تحریک ہے جس کو کھیت مزدوری اور چھوٹے کسانوں سے قوت ملی تھی.(جنگ آزادی کے اہم پہلو از.عبدالرحیم قریشی )حضرت بابا مجنوں شاہ ملنگ مداری کو جنگ آزادی کا پہلا ہیرو بھی کہا جاتا ہے یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج سے آزادئ ہند کے لئےسب سے پہلے آپ نے ہی جنگ لڑی اور ملک واسیوں کے دلوں میں آزادی کی شمع روشن کی.دور حاضر کے ایک محقق قلمکار پروانہ ردولوی نے ہفت روزہ نئی دنیا میں اس حقیقت پر 1994ء اگست16 تا22 دہلی کا 1857 پر بہتر روشنی ڈالی ہے.آپ لکھتے ہیں کہ غدر ہی عظیم ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی نہیں ہے بلکہ اس غدر سے پہلے ہی انگریزوں کے تسلط کے خلاف 1763ء میں شعلے بھڑک اٹھے تھے- اس عظیم تحریک کے سب سے بڑے قائد بابا مجنوں شاہ ملنگ تھے.
انکے خلیفہ جناب موسی شاہ ، چراغ علی شاہ, نورالحمد شاہ ، رمضانی شاہ ، ظہوری شاہ ، سبحان علی شاہ، عمومی شاہ ،نیکو شاہ ، امام علی شاہ ، بدھو شاہ ، پیر گل شاہ ، مطیع اللہ شاہ وغیرہ نے چالیس پینتالیس سال تک اس تحریک آزادی کو چلایا, ملک میں باضابطہ انکی مربوط تنظیم نہ ہونے کے باوجود یہ فقیر گاؤں گاؤں جاکر لوگوں کوانگریزوں کے خلاف اکساتے تھے.بابا مجنوں شاہ ایک زبردست تنظیمی صلاحیت کے مالک تھے.وہ مشکل حالات میں بے مثال شجاعت کا مظاہرہ پیش کرتے تھے.انہوں نے میکینزی کی زیر کمان انگریزی فوج کو پے در پے ہزیمتوں سے دوچار کیا.1769ء میں فیصلہ کن شکست دی.1766ء میں کمانڈر کہتھ کی فوج کو ذلت آمیز شکست دی اور اسکا سر قلم کردیا.1771ء میں بابا مجنوں شاہ ملنگ نے اپنے مستان گڑھ کے قلعہ میں مورچہ بندی کی اور لیفٹینٹ ٹیلر کی فوج کے چھکے چھڑا دئیے.اور صوبہ بہار نکل گئے. جہاں کسانوں اور دستکاروں کا ایک ہزار کا لشکر آپکے ساتھ ہوگیا.وجہ یہ تھی کہ دستکاروں اور کسانوں کو اپنا سارا مال انگریز سوداگروں کے ہاتھ بیچنا پڑتا تھا وہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے طئے کئے داموں پر اور جب کوئی کسان اچھے داموں پر کسی اور کے ہاتھ مال بیچتا ہواپکڑا جاتا تھا تو اسے چابکوں سے مار مار کرجیل میں ڈال دیا جاتا تھا لہٰذا کسان اور دستکار بابا کے ساتھ شامل ہوگئے.
14نومبر1776ء میں وسائل کی قلت کے باوجود بابا مجنوں شاہ نے فرنگیوں کو ایک اور شکست دی جسمیں لفٹنٹ برارٹسن شدید طور سے زخمی ہوا.اور اسی طرح حضرت بابا مجنوں شاہ ملنگ مداری اپنے وطن کی آزادی کے لئے انگریزی حکومت سے لڑتے رہے یہاں تک کہ بلند شہر میں 29 دسمبر 1786ء کو دشمن کی گولیوں کا شکار ہوئے ,زخمی ہو کراپنے مرکز "مکن پور شریف " چلے آئےیہاں تین انگریز بهائی رہتے تھے اور ان کی بہت بڑی کوٹھی تهی جو آج موجود تو نہیں ہےمگر اس کے کچه نشانات ہیں ، اس جگہ کو آج بهی کوٹھی کہا جاتا ہے! غرض بابا مجنوں شاہ ملنگ انگریزوں کے سخت دشمن ہو چکے تھے انگریزوں کے وجود کو برداشت نہیں کرتے تھے-
اپنے ہی مرکز میں تین انگریز بهائیوں کو دیکھ کر ان کے ضبط و صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور آپ نے " میکس ویل برادرس " کے ایک بھائی " پیٹر میکس ویل " کو قتل کر دیا جس کی پاداش میں انگریزی فوج نے مکن پور شریف پر چڑهائی کر دی اور بہت ہی تباہی مچائی, علما و مشائخ کو تلاش کرکے شہید کیا ,کچھ لوگوں کو انگریزوں نے پیڑوں سے لٹکا کر پهانسی دے دی اور کچھ لوگوں کو ایک طرف سے لائن میں کهڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا! کچھ کو جزیرہ انڈمان نکوبار )کالا پانی) بهیج دیا! یہاں پر موجود بزرگوں کے مزارات کے نادر اور قیمتی تبرکات کو بھی لوٹ لیا,اور سلطان ابراہیم شاہ شرقی بادشاہ جونپوری کے ذریعے لگائے گئے "کوہ نور ہیرا" لگایا تها جس کو "شب چراغ " بھی کہا جاتا تھا انگریز اسے بهی لوٹ کر لے گئے,یہاں پر موجود درگاہ شریف کے کتب خانہ کو آگ لگا دی ! غرض بڑے بڑے نقصانات کئے اور مکن پور شریف کو تباہ کر ڈالا !حضرت بابا مجنوں شاہ مداری ملنگ رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ 26 دسمبر 1787 عیسوی کو دارِ فانی سے کوچ کر گئےگئے! ۔۔۔۔۔۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی تدفین مکن پور شریف میں ہوئی, آج بھی آپ کا مزار شریف میلہ کوتوالی کے قریب موجود ہے.