مخدوم شیخ سعد خیرآبادی کی جامع کمالات شخصیت

(بموقع وصال:۱۶ ؍رَبیع الاول بروز سنیچر)

انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے تمام مخلوقات سے افضل واشرف ہے اور یہ رتبہ ومرتبہ اللہ سبحانہ نے عام انسانوں کو دیا ہے۔ لیکن انسانوں میں کچھ ایسے نفوس قدسیہ اور برگزیدہ بندے بھی ہیں جنھیں اللہ سبحانہ اپنا خاص محبوب ومقرب بنالیتا ہے، اُنھیں محبوبین ومقربین میں ایک نام قطب عالم حضرت مخدوم شیخ سعد خیرآبادی قدس سرہٗ (بڑےمخدوم صاحب) کا ہے ۔ آپ نویں اور دسویں صدی ہجری کے عظیم مشائخ چشت میں اعلی مقام پر فائز تھےاور ظاہری وباطنی علوم ومعارف میں یکساں قدرت ومہارت کے مالک تھے۔

نام ونسب:

اصل نام سعدالدین ہے لیکن عوام وخواص میں’’شیخ کبیر ‘‘اور’’ بڑے مخدوم صاحب ‘‘کے نام سے مشہورومتعارف ہیں۔آپ کےوالد ماجد کا نام’’ قاضی بدرالدین‘‘ عرف ’’بڈھن‘‘ تھا۔حضرت بڈھن صاحب اپنے زمانے میں شہراُنّام(اُنّاؤ) کے قاضی و حاکم رہے ہیں اور حضرت قاضی قدوۃ قدس سرہٗ کی اولاد اَمجاد میں آتےہیں۔قاضی قدوہ صاحب ،خواجہ عثمانی ہارونی قدس سرہٗ کے مریدوخلیفہ اور سلطان الہند خواجۂ خواجگان حضرت سید معین الدین حسن چشتی معروف بہ’’خواجہ غریب نواز‘‘ قدس سرہٗ کے خواجہ تاش (پیربھائی) ہیں۔ قاضی قدوہ صاحب اپنے شیخ کے حکم پر رُوم سے ہندوستان وارد ہوئے اور ہندوستان کی شہریت اختیار کرلی۔ اُن کا خاندان بڑا علمی تھابلکہ اُن کے یہاں جو لوگ خدمت پر مامور تھے وہ بھی اپنی علمی صلاحیت اور فکری دانشمندی میں اپنی مثال آپ ہوتے تھے۔

ولادت اورتعلیم وتربیت: مخدوم شیخ سعد خیرآبادی قدس سرہٗ قدوائی شجرۂ نسب کےایک تعلیم یافتہ صوفی خاندان میں ۸۱۴ھ کو پیدا ہوئے اور جس علاقے میں آپ پیدا ہوئے وہ اُنّاؤکا علاقہ تھا۔ چوں کہ خاندان اور گھر کا ماحول خالص دینی اور علمی تھا اِس لیے آپ کی پرورش وپرداخت بھی دینی ماحول میں ہوئی اور آپ کے لیےحصول تعلیم کا ایک خاص اہتمام اور بندوبست بھی کیا گیا۔چناںچہ حسب دستوراَوّلاً اپنے علاقےکے ایک مکتب میں داخلہ لیا اور اپناتعلیمی سفر کا آغازکیا۔ آپ ایام طفولیت ہی سے انتہائی ذکی اور ذہین واقع ہوئے تھےاِس لیے بلا ناغہ اپنا سبق بخوبی دیا کرلیا کرتے تھے۔ 

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ رات کے وقت چراغ میں تیل نہیں تھا اور آپ کو اپنا سبق یاد کرنا تھا۔ آپ اپنی والد ماجدہ کے پاس گئے اور یہ کہہ کر رُونے لگے کہ میں اپنا سبق کیسے یاد کروں؟ آپ کے تعلیمی ذوق وشوق کو دیکھتے ہوئے آپ کی والد ماجدہ نےسبق یاد کرنے کے لیے یہ ترکیب نکالی کہ گھر میں رکھے جلاون کے بوجھ سے دو-دو، تین-تین لکڑیاں اورشاخیں نکالتی جاتیں اور اُنھیں جلاتی جاتیں اور پھر اِس طرح جلاون کی روشنی میں آپ نے اپنا سبق یاد کرلیا۔(ذکرسعد)اس واقعے سےاندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے اندر حصول تعلیم کا جذبہ کس قدر موجود تھا۔

 پھر جب آپ نے قرآن کریم حفظ کرلیا تو بچوں کے ساتھ کھیلنااور کودنا بالکل بند کردیا اور تعلیم کے حصول میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ چندہی برسوں کے اندر آپ نےمختلف علوم وفنون میں کمالات ودرجات کے چوٹی پر پہنچ گئےاور اَپنے عہد کے کبارعلما میں شمار ہونے لگے۔ لیکن چوںکہ آپ کو تو حدپرواز سے بھی اُنچا جانا تھا اِس لیےمزید پچاس برسوں تک مزیدحصول تعلیم میں منہمک رہے۔ ویسے تو اَپنے عہد کے متعدد بافیض علما ومشائخ سے آپ نے اکتساب علم کیا اُن میں سے دو اساتذہ بہت زیادہ مشہورہیں: ایک مولانا اعظم ثانی اور دوسرے قاضی مسیح بن شیخ مرتضیٰ قدس سرہما۔

علمی کمالات ودرجات:

علمی کمالات ودرجات کی بات کی جائےتو آپ اپنے معاصرین میں انتہائی بلند رتبہ رکھتے تھے اور ایک ممتاز ومنفرد مقام پر فائز تھے۔ علوم وفنون میں آپ کے کمالات ودرجات کیا تھے اِس کا اندازہ اِس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ کسی عارف باللہ نے عالم خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ’’ مخدوم شیخ سعد خیرآبادی قدس سرہٗ کا مرتبہ ومقام علما کے درمیان کیا ہے؟ ‘‘تو خاتم المرسلین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اجتہاد میں امام احمد بن حنبل کا درجہ رکھتے ہیں۔‘‘ (تحفۃ السعداء)
مجمع السلوک والفوائد: آپ کی عظیم تصنیف ’’مجمع السلوک والفوائد‘‘ ہے۔ یہ کتاب علم تصوف کا عظیم رسالہ’’رسالہ مکیہ‘‘ (اَز قطب الدین دمشقی) کی ایک مبسوط اورجامع ومانع شرح ہے۔’’ مجمع السلوک والفوائد‘‘ اَب تک فارسی مخطوطے کی شکل میں ہی دستیاب تھی۔ لیکن الحمدللہ! اِس کاترجمہ شاہ صفی اکیڈمی، الہ آباد سے ۲۰۱۰ء میں شائع ہوچکا ہے اور آج یہ کتاب عوام وخواص میںانتہائی مقبولیت کی نگاہ سے دیکھی جارہی ہے۔ اِس کتاب کی اہمیت وافادیت کے تعلق سے بس اِتنا جان لیجیےکہ ’’اِس کتاب کو فن تصوف میں وہی حیثیت اور درجہ حاصل ہےجو حیثیت اور درجہ علم فقہ میں ’’ہدایہ‘‘ کو حاصل ہے۔

بیعت اورخلافت واجازت:

تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ لکھنو پہنچے اور قطب وقت حضرت مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ کی بارگاہ میں حاضری دی اور اُن سے بیعت اور خلافت واجازت کا شرف حاصل کیا۔ حضرت مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ، مخدوم شیخ سعد خیرآبادی کو جن باتوں کی تلقین فرمائی تھی اُس تعلق سے آپ خود لکھتےہیں:’’جب حضرت پیردستگیرمخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ نے مجھے تلقین فرمانے کا ارادہ کیا تو پہلے صوم (روزہ) کی پوری تعلیم دی۔ پھر عشا کی نماز کے۹ بعد غسل کرکے حاضری کا حکم دیا۔ خود قبلہ کی طرف پشت کی اور مجھ کو قبلہ رو بٹھایا۔ پھرتھوڑی سی خوشبو بھی منگوائی، اُس میںسےمجھ فقیر کوبھی عنایت کی اورخود بھی اپنی داڑھی میں لگائی اور سند تلقین کابراً عن کابرٍ پڑھ کر سنائی۔(تحفۃ السعداء) 

پیرومرشد سے اُنسیت:

مخدوم صاحب اپنے پیرومرشد قطب عالم حضرت شیخ مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ سے کافی گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ تقریباً بیس سال تک اپنے شیخ کی خدمت میں رہے اور سخت ترین مجاہدات ورِیاضات کے ذریعے درجۂ کمال کو پہنچے اور ہمیشہ اپنے شیخ ومرشد کی اطاعت وپیروی میں لگے رہے۔ آپ نے اپنے مرشد کا کوئی بھی عمل نہیں چھوڑا اَوراُن کے تمام معمولات کی پیروی کی،یہاں تک کہ اپنے مرشد کی پیروی میں آپ شادی بھی نہیں کی۔ آپ کا ماننا تھاکہ جو شخص صدق واخلاص کے ساتھ اپنے پیرومرشد کی پیروی اور تقلید کرلے تو اُس کی دنیا وآخرت دونوں جہان کی نعمتیں حاصل ہوجاتی ہیں۔

خیرآبادآمد اَوردعوت واِرشاد:

۸۸۴ھ /۱۴۷۹ء میں جب حضرت مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ کا وصال ہوگیا تو اُس کے بعد چھ سال تک لکھنو شہرمیں قیام پذیر رَہے۔ لیکن پیردستگیر مخدوم شاہ مینا لکھنوی کی طرف سے عالم خواب میں اشارہ ملاکہ خیرآباد چلے جاؤاورخیرآباد میں ہی سکونت اختیار کرو اَورلوگوں کے درمیان دعوت واِرشاد عام کرو۔چناںچہ آپ خیرآبادتشریف لے گئے اور مکمل بتیس(۳۲)برسوں تک بندگانِ خدا کو کی اصلاح وتربیت فرمائی، اُنھیں رشدوہدایت کی تعلیم وتلقین فرمائی اور علم ظاہری وعلم باطنی سے عوام الناس کو مستفیض فرمایا۔

خیرآباد میں جہاں آپ نے قیام فرمایا وہ ایک غیرآباد جگہ تھی لیکن جیسے جیسے آپ کی ولایت کی خبراطراف اکناف میں پھیلتی گئی ویسے ویسے آپ کے اردگرد عوام الناس کی آبادی میں روز اَفزوں اضافہ ہوتا گیا، اور پھر ایک دن وہی ویران وغیرآباد جگہ بندگان خدا سےشاد وآباد ہوگئی۔

مریدین وخلفا:

آپ کے مریدین کی حتمی تعداد کا اَندازہ نہیں کیوں کہ بکثرت پائے جاتے ہیں جب کہ آپ کے خلفا کی تعداد اُنتیس(۲۹) بتائی جاتی ہے، اور عظیم وفخریہ بات یہ ہےکہ آپ کے تمام خلفا اپنے زمانے کے عارفین باللہ اور مقتدائے دین رہے ہیں۔ اُن میں سے کچھ کے نام یہ ہیں: 

۱۔ مخدوم الانام حضرت شاہ صفی ، ۲۔ سراج الاسلام شیخ محمود، ۳۔ بندگی مخدوم شیخ کمال، ۴۔ شیخ ابراہیم بھوجپوری، ۵۔میران سید کشائین بخاری، ۶۔میران سید خورد، ۷۔میاں شیخ برہان، ۸۔شیخ کدن مصالح لکھنوی، ۹۔میران سید پیارے جونپوری، ۱۰۔شیخ علاؤالدین ارزانی، ۱۱۔میاں قادربخش، ۱۲۔شیخ نوراِسحٰق بجنوری قدست اسرارہم(وغیرہ)

 وصال:

آپ ایک طویل مدت تک باحیات رہے اوربالآخر ۱۰۸؍ سال کی عمر میں ۱۶؍ربیع الاول ۹۲۲ھ/۱۵۱۶ء اِس دارفانی سے داربقا کی طرف رحلت فرمائے۔(اناللہ وانا الیہ راجعون) 

تعلیمات واِرشادات:

تحفۃ السعداء کی روشنی میں حضرت مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی کی تعلیمات حسب ذیل ہیں:
  نفس ناپاک، انواع واقسام کے توہمات اور حرکات کا مالک ہے۔ کبھی کہتا ہےکہ یہ آخری زمانہ ہے۔ فیوض منقطع ہوچکے ہیں۔ معلوم نہیں کہ فتحیاب ہو یانہ ہو۔ اس کے توہمات وحرکات کی طرف بالکل توجہ نہیں کرنا چاہیے۔

  علم حاصل کرنے میں جان کی ہلاکت کی بالکل پرواہ نہ کرواَورہرمصیبت میں علم حاصل کرو۔
ث  اے عزیز! مخلوق کو نفع پہنچانا تمام طاعتوں میں بزرگ تر ہے مگر یہ اُسی صورت میں ہے جب کہ اللہ سبحانہ کی راہ میں وہ کامل ہوجائے لیکن اُس وقت انتہائی دردمندی سے مدد کرے اور وہ کام ہوبھی جائے کہ لوگ تعجب کریں تو جو کچھ اُس نےکیا ہوگا وہ اخلاص عین اخلاص ہوگا۔ ورنہ سب کچھ لاف وگزاف ہوگا کیوں کہ مقصود ہی معبود ہوتا ہے۔

  اللہ سبحانہ کا علم تازہ تھا جب علمائے دنیادار ظاہر ہوئے تو اِسلام میں خلل آگیا۔
  روح بادشاہ ہے، عقل اُس کا وزیر ہے اور خشیت ربانی اُس کے ملک کا لشکر ہے۔ دوسری طرف نفس بادشاہ ہے، اُس کا وزیر شیطان ہے اور خواہشات اُس کالشکر ہے۔ روح اور نفس میں جنگ ہوتی رہتی ہے۔ جب تک روح غالب رہتی ہے تو اُس وقت خیرات وحسنات اور عبادتیں وجود میں آتی ہیں اور اَگر نفس غالب رہتا ہے تو فسق وفجور وجود میں آتا ہے اور دل جس جماعت کو غالب دیکھتا ہے اُسی کا مددگار ہوجاتا ہے۔

  صوفیانہ اخلاق میں مشائخ کا احترام واجب ہے۔ جو لوگ سجادۂ مشیخت پر حانشین ہیں یا عمر میں بزرگ ہیں اُن کی حرمت وبزرگی کا لحاظ رکھو اَور اُن کی حکم عدولی نہ کرو۔
  صوفیانہ اخلاق میں سےظالم پر رحم کرنابھی ہے۔

 انبیا کے لیے معجزات کا اظہار ضروری ہے مگر اَولیا کے لیے کرامت کا اظہار غیرمناسب ہے۔ البتہ! اگر دین میں فتنہ برپاہونے کا اندیشہ ہوتو اُس وقت کرامت کا اظہار ـضروری ہے۔(ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ، الہ آباد)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter