اعلحضرت سید مقبول شاہ کشمیری رحمہ اللہ عليه:حیا ت و خدمات

                خدائے وحدہ لا شریک لہ کا امت مسلمہ پر احسان عظیم ہے کہ جب جب یہ امت ضلالت وگمراہی کے دلدل میں پھستی رہی تب تب اللہ تبارک وتعالی نے انبیاء کرام کے نیابت کے طور پرانکے بے شمار وارثین کو بھیجتا رہا جنہوں نے کفر وعصیا ں، بدعت و گمراہی میں پھسے ہوئے ہزاروں لوگوں کو راہ حق کی طرف گامزن کیا اور نور علم و عرفان سے سارے عالم کو منور و مجلی کیا۔ اس دنیائے آب و گل میں بے شمار ہستیوں نے جنم لیا اور آفتاب و مہتاب کی طرح سارے جہاں کو رشد و ہدایت سے روشن و تابناک کردیا۔ انہیں بزرگان حق اور اولیاء کاملین میں سے پیر سید مقبول شاہ کشمیری رحمہ اللہ کا بھی شمار ہوتا ہے جنہوں نے ہند و بیرون ہندمیں تبلیغ اسلام اور اشاعت اہلسنت و الجماعت کے خاطر اپنی پوری زندگی قربان کردی۔ بالخصوص صوبۂ کرناٹک کے ایک چھوٹے سے قصبہ ہانگل شریف میں اپنے دریائے علم و حکمت سے سنیت کا ایسا گلشن سجایا کے آج بھی جتنے پھول اس سرزمین میں کھل رہے ہیں ان سے اہلسنت و الجماعت کی خوشبو آرہی ہے جب کے ہانگل شریف سنیت کا مرکز اور قلع بن چکا ہے جو آج کل لوگوں کے درمیان چھوٹی بریلی سے مشہور و معروف ہے۔

ولادت:

                حضور مقبول شاہ رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت 1312ہجری بمطابق 1892ء کو سر زمین کشمیرضلع مولہ کوٹلری ہند واڑہ میں ہوئی لیکن آپکی پرورش ڈنگی وچھہ تحصیل سوپور میں ہوئی۔آپ نجیب الطرفین سیدتھے۔آپ کا اسم گرامی سید مقبول احمد شاہ قادری تھا۔بچپن ہی سے نہایت خوبصورت اور سراپا حسن وجمال کے پیکر تھے جس کی وجہ سے گھر والے آپ کو 'لعل جان ' کہکر پکارتے تھے۔ والد ماجد سیدنعمان شاہ قادری اور والدہ محترمہ سیدہ عصمت بانو نے آپکی بہترین پرورش کی اور تربیت واخلاق میں کسی قسم کی کمی نہ چھوڑی۔آپ کے تین بھائی پیر سید یوسف شاہ قادری،پیر سید عبد الاحد شاہ قادری، پیر سید مبارک شاہ قادری اور ایک ہمشیرہ سیدہ ثروہ بانو رحمۃ اللہ علیہم تھے۔

 

تعلیم :

                اعلحضرت مقبول شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار حضرت نعمان شاہ قادری سے شروع ہوئی۔ تقریبا چھ سال کی چھوٹی سی عمر میں تکمیل قرآن مجید فرما کراحکام دین کی واقفیت حاصل کی۔ پھر مولانا عزیز اللہ صاحب کی بارگاہ میں زانوئے تلمذتہ کئے اور نحو وصرف اور ابتدائی عربی کے چند نسخے اور فقہی مسائل سے بہرا ور ہوئے۔ بعدہ قصبہ سیلو میں ایک عالم جلیل حضرت علامہ احمداللہ صاحب کے پاس بغرض تعلیم روزانہ آمد ورفت کا سلسہ شروع ہوگیا۔ہر دن اپنے برادر کلاں کی کفالت میں جاتے اور راستے میں بھوک و پیاس سے بچنے کیلئے دودھ زاد راہ ہوا کرتا تاکہ جب ضرورت پیش آئے نوش فرما کر سیراب ہوجاتے۔سیلو کے بعد مزید تعلیم کے لئے کشمیر کے شہر شیرین نگر کے مدرسہ (مدرسۃ المدینہ) کی طرف رخ کیااور وہاں ایک جید عالم سے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔

 

                اعلحضرت کشمیری کی علمی تشنگی ابھی نہ بجھی تھی لہذ ا دو ساتھیوں کے ہمراہ امرتسر کا سفر طے کیا۔ وہاں پہنچ کر مفتئی اعظم امرتسر حضرت علامہ غلام مصطفی صاحب کی خدمت عالیہ میں حاضری دی اور پورے چھے سال تک فضیلت کی تعلیم میں مصروف و منہمک رہ کر علوم ومعارف کے خزانوں کو اپنے سینے میں سمو لیا۔اپنے ہمراہیوں کو خیر آباد کر کے مزید تعلیم کی غرض سے دہلی کی طرف رخت سفر باندھااور مدرسہ نعمانیہ میں زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے رہے۔دوران قیام حکیم اجمل خان سے علم و حکمت میں گراں قدر معلومات حاصل کیں اور علم و حکمت کا بیش بہا خزانہ اور قیمتی سرمایہ اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔

                راہ علم و عرفان میں آپکا آخری سفرجامعہ ازہر مصر کی طرف رہا جہاں آپ نے کتب قدیمہ کا تحقیقی و تدقیقی مطالعہ کیا۔ نیز عربی ادب، فنون عقلیہ و علوم نقلیہ میں خصوصی مہارت حاصل فرما کر اپنے آپ کوعلمی زیورات سے مزین کیا اور مصرسے سیدھا کشمیر کے بجائے اجمیر شریف تشریف لے گئے اور بارگاہ خواجہ میں حاضری دی اور مکمل دو سال دینی خدمات میں کوشاں رہے۔

خدمات ورد بدعات :

                تاریخ گواہ ہے کہ شاہ کشمیری کے حصول علم کا مقصد نہ تو مال و زر تھا نہ ہی عزت و جاہ بلکہ صرف اور صرف تاجدا ر مدینہ رسول کریم ﷺ کی شریعت غراء کی ترویج اور اہلست و الجماعت کی نشر واشاعت تھا۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ آپ نے پوری زندگی بد مذہب اور گمراہ لوگوں سے اجتناب کی دعوت اور رد بدعت میں قربان کردی۔ شاہ کشمیر ی نے اپنی حیات مبارکہ میں دینی خدمات،درس و تدریس، وعظ و نصیحت کے عوض کبھی کسی سے ایک روپہ بھی طلب نہیں کیا۔

                آپکی تدریسی زندگی کا آغاز اجمیرشریف کے مدرسہ معینہ سے شروع ہوا جہاں آپ نے اپنے علمی کاوش کو بارگاہ غریب نواز میں نذر کرنے کے لئے اختیار کر لی۔خیر جب تک خواجہ نے اپنے عرفانی و روحانی فیوض و برکات سے قلب مقبول کو منو ر کرنے کی ضرورت سمجھی اس وقت تک اپنی بارگاہ میں روکے رکھا۔ ساتھ ہی ساتھ بے شمار طالبان علوم نبویہ آپکے علمی سمندر سے سیرابی حاصل کرتے رہے۔حتی کہ مشہور ولی حضرت سرکار دوریش بابا علیہ الرحمۃ آپ کے فیض یافتہ تھے اور زندگی بھر ہر نفس میں شاہ کشمیری کا دم بھر تے تھے۔

                حضور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ایک تحقیق پیش کی کہ کسی ایسے مباح کا انکار جو دلیل قطعی سے ثابت ہو کفر کی طرف لے جاتا ہے۔ اسی قائدہ کلیہ کی بناد پر دہلی کے نامور مفتی کفایت اللہ پر کفر کا فتوی صادر فرمایا۔ چونکہ اس نے فاتحہ کو ناجائز و بدعت کہا تھا۔ اسی طرح جب دیوبندیوں نے بعد نماز مصافحہ کرنے کو بدعت و ناجائز کہا تو شاہ کشمیری نے دلائل قطعیہ و براھین مستندہ سے دندان شکن جواب دیا اور بخاری شریف کی حدیث سے ثابت فرمایا کہ بلا تعین وقت کسی بھی وقت مصافحہ کرنا سنت ہے تو نمازوں کے بعد بھی بلا شبہ جائز بلکہ سنت ہے۔

                اسی طرح مرد مردسے اورعورت عورت سے باہم مصافحہ کرنے پر بھی آپ نے لوگوں کو توجہ دلائی اور فرمایا کے اس سنت سے عورتیں جدا نہیں ہیں۔ آپ کا طریقۂ مصافحہ یوں ہے کہ ایک مسلمان کے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے مسلمان کے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کے ساتھ ملائے اور بائیں ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے کے بائیں ہاتھ کے ساتھ ملائے۔ اور عورتوں کے ذبیحہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہر سنی مسلمان عورت کا ذبیحہ جائز و حلال ہے اسی طرح انکی دلائی ہوئی نیاز و فاتحہ سب جائز ہے۔

اسفار تبلیغ:

                پیر سید مقبول شاہ کشمیری رحمہ اللہ تبلیغ دین متین اور اشاعت سنت نبویہ کے خاطر متعدد مقامات کا سفرطے کیا۔ اسی طر ح آپ نے بریلی کا رخ کیا جہاں آپ کو امام اہلسنت قاطع بدعت مجدد اسلام اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ و الرضوان سے شرف ملاقات نصیب ہوئی اور علم و عرفان سے مستفیض ہوئے۔دعوت و تبلیغ کے خاطر آپ نے ہندوستان کے مختلف مقامات کا سفر کیا بالخصوص کرناٹک کے بے شمار علاقوں میں تشریف لے گئے جیسا کہ بھٹکل، کمٹہ،سرسی،داونگیرہ، آلور، شیموگہ، میسور،ہاسن، چکمنگلور،ہبلی، مامب ہلی وغیرہ۔

                شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ضلع میسور کے مامبھلی میں سب سے زیادہ قیام کیا تقریبا بارہ سال دین حق کی دعوت اور شریعت نبویہ کی تعلیم میں مصروف رہے۔ پھر1951ء کو آپ کا ارادہ ہانگل کی طرف ہوا جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک خدمت خلق اور اصلاح معاشرہ کرتے رہے۔بے شک آپکی آمدنے ہانگل جیسے جنگل کو نو ر علم و حکمت سے روشن کردیا اور پھر یہ ہانگل سے ہانگل شریف بن گیا۔ یہاں آپ نے تقریبا 19 سال قیام کیا اسی دوران بڑے علماء و حکماء کے بے شمار مسائل کا تشفی بخش جواب دیا۔

مقصد عظیم:

                پیر سید مقبول شاہ کشمیری رحمہ اللہ کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ یہاں ایک عظیم جامعہ قائم ہو جس میں معتمد علماء پڑھیں اور تحقیق فی الفقہ او ردیگرعلوم کو کما ل کی انتہا تک پہنچائے۔ آپ فرماتے تھے کہ علم الادیان کے ساتھ علم الابدان کی بھی تعلیم دی جائے۔اور آپکی تمنا تھی کہ علماء کو درس دیں اور زیور علم سے مزین کریں تاکہ قوم و ملت کی اصلاح ہوجائے اور تعلیم نبوی عام ہوجائے۔

                الحمد للہ آج ہانگل شریف میں ایک عظیم الشان علمی قلعہ بنام جامعہ دارالہدی اسلامیہ۔ہانگل سینٹر تیار ہو چکا ہے جہاں دینی و عصری علوم منظم طور پر فراہم کی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ علوم و فنون کا گہوارہ سید مقبول شاہ کشمیری رحمہ اللہ کا ہی خواب تھا جو آج شرمندہ تعبیر ہوچکا ہے۔کیونکہ دارالہدی نے کرناٹک کے مختلف علاقوں میں ایک دینی ادارہ قائم کرنے کا ارادہ کیا مگر شاہ کشمیری کا فیض ہے کہ ہانگل شریف کا انتخاب ہوا۔

وفات:

شاہ کشمیری رحمہ اللہ آخری ایام میں علالت میں مبتلا ہوگئے۔اور صبح 7 بج کر 20 منٹ بروز اتوار) ۵ صفر 1390 ہجری(بمطابق)14 اپریل 1970ء (کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ حضور کا مزار مبارک قصبہ ہانگل کے قلعہ محلہ میں واقع ہے جہاں دن رات حصول برکت کے لئے لوگوں کاآنا جانا ہوتا ہے۔ اور ہر سال 5,4,3 صفر المظفرکو بڑے تزک و احتشام سے آپکا عرس مبارک منایا جاتا ہے۔

(بموقع 52 واں عرس مقبولی 

(ازقلم: محمد ابراہیم بن عبد الرحمن الہدوی) استاذجامعہ دارالہد ی۔ہانگل

(Mohamed Ibrahim Hudawi (Lecturer DHIU-Hangal)

Related Posts

Leave A Comment

2 Comments

Voting Poll

Get Newsletter