خوشی و مسرت کا اسلامی تصور اور میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی بہاریں
نعمت و انعام کے عطا ہونے پر خوشی منانا یہ فطری اَمر ہے اور سرشتِ انسانی کا حصہ۔رسول اللہ ﷺ کی آمد فضلِ الٰہی ہے۔ خداے قدیر کا حکم بھی ہے:
قُل بِفَضْلِ اللہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ’’تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اس پر چاہیے کہ خوشی کریں۔‘‘(۱)
سرکار دو عالم ہادی کونین ﷺ کا تشریف لانا نعمت و عافیت، برکت و سعادت اور عطا و نوازش کا نقطۂ عروج ہے۔ جب آفتابِ رسالت ﷺ طلوع ہوا تو کفر کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور حق کا اُجالا پھیل گیا، اللہ تعالیٰ کی توحید و یکتائی اور عظمت و شان کا نغمہ لبوں پر جاری ہو گیا۔ ان انعامات کے تشکر اور اظہارِ فرح و مسرت کے لیے مسلمانوں کا ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کا جشن منانا ایک ایمان افروز اور کفر سوز کام ہے۔ امام محمد شرف الدین بوصیری (م۶۹۴ء) نے حقیقت افزا بات کہی ؎
حَتّٰی اِذَا طَلَعَتْ فِي الْاُفْقِ عَمَّ ھُدَا
ھَا الْعَالَمِیْنَ وَاَحْیَتْ سَائِرَ الْاُمَمٖ
ترجمہ: یہاں تک کہ جب افق کائنات پر وہ آفتاب طلوع ہوا تو اس کی ہدایت سارے جہانوں میں پھیل گئی اور اس نے بہت ساری قوموں کو حیات عطا کر دی۔ (۲)
سرکار دو عالم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کی ساعت ِ سعید کو مجددِ اسلام امام احمد رضا قادری برکاتی محدث بریلوی (م۱۳۴۰ھ/ ۱۹۲۱ء) نے ’’سہانی گھڑی‘‘ سے تعبیر کیا ہے ؎
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
سیرتِ طیبہ کا موضوع بڑا وسیع اور منفرد و اچھوتا ہے۔ میلاد کا عنوان سیرت کا ایک مستقل اور اہم باب ہے، جس پر اب تک بکثرت کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی رہے گا۔
میلاد در اصل سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری و ولادت کے تذکرہ کو کہا جاتا ہے،خواہ منظوم ہو یا منثور۔ اس لیے اس کا اہتمام کوئی نیا اور باعثِ عار کام نہیں، اسلافِ کرام نے اس کا اہتمام اسلامی شان کے ساتھ کیا ہے، ہر دور میں یہ اہتمام ہوتا آیا ہے، بلکہ قرآنی اسلوب میں بھی اس کے جلوے پیش کیے جا سکتے ہیں، جیسے:
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْ مِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ
’’بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے۔‘‘ (۳)
اسی طرح انبیاے کرام سے جو عہد لیا گیا اور محبوب پاک ﷺ کی تشریف آوری کی بشارت سنائی گئی اس میں بھی کیا دل کش اسلوب ہے:
وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّنَ لَمَآ اٰ تَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآ ئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْ مِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ
’’اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا‘‘ (۴)
پھر یہ پہلو بھی لائق غور ہے کہ جب محبوب ﷺ کو رحمۃللعالمین بنا کر بھیجاگیا تو کیا اس رحمت پر خوشی نہیں منائی جائے گی؟مسرتوں کا اظہار نہیں کیا جائے گا؟… وہ کیسے ہیں جو منھ بسورتے ہیں اور انھیں یہ ایمان افروز جشن محبت و تقدیس نہیں بھاتا۔
کتاب الصیام صحیح مسلم شریف میں ارشاد نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے:
فیہ ولدت، وفیہ انزل علیّ ’’میں اسی روز پیدا ہوا اور اسی روز مجھ پر وحی نازل کی گئی۔‘‘(۵)
اس یوم کی عظمت و شان کے حوالے سے خاتم المحدثین امام جلال الدین سیوطی (م۹۱۱ھ / ۱۵۰۶ء) تحریر فرماتے ہیں:
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ پیر کے روز روزہ رکھنے میں بڑی فضیلت ہے، کیوں کہ آقائے دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت اسی دن ہوئی لہٰذا ضروری ہے کہ جب یہ مہینہ آئے تو اس کی شان کے لائق اس کا احترام و اہتمام ہو اور اس کی تعظیم و تکریم کی جائے، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے کیوں کہ آپ کی یہ عادت کریمہ تھی کہ آپ فضیلت والے اوقات کو زیادہ عبادت و خیرات فرماتے تھے۔‘‘( ۶)
علامہ حافظ عمادالدین ابن کثیر دمشقی (م۷۷۴ھ / ۱۳۷۳ء) تحریر فرماتے ہیں:
’’تمام تعریف اللہ کے لیے جس نے سیدالمرسلین کے ظہور سے ہر وجود کو روشن کیا اور حق مبین کی ضیا سے باطل کی ظلمتوں کودور کیا، اور حق کے راستوں کو واضح کیا جب کہ لوگ جہل کی تنگ نائیوں سے گزر رہے تھے۔‘‘( ۷)
میلاد مبارکہ کے سلسلے میں شرعی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر محافلِ میلاد کا انعقاد باعث اجر و ثواب ہے۔ ناقدین کے لیے یہ نکتہ لمحۂ فکریہ ہے کہ سال بھر تو ذکر رسول ﷺ کی محافل منعقد ہوتی ہیں اب اگر ربیع الاول میں اسی محفل کا نام ’’محفلِ میلاد ‘‘ رکھ دیا جاتا ہے تو وہ صرف نام کی تبدیلی سے کیوں مضطرب ومضمحل ہو جاتے ہیں؟ کیا عقلی طور پر اس کی اجازت دی جائے گی کہ خواہ مخواہ اِدھر اُدھر وقت تو ضائع کر دیا جائے، غیبت و چغلی اور اُلٹے سیدھے کاموں کی محفل آراستہ کی جائے لیکن میلادِ رسول اور آمدِ رسول ﷺ کی محفل سے احتراز کیا جائے! یہ تو سخت محرومی کی بات ہے!!
رہی بات عہدِ صحابہ میں میلاد کے اہتمام کی تو ان کا ہر ہر لمحہ ذکر رسول ﷺ سے روشن ہوتا تھا ، یادِ رسول ﷺ سے پُر ہوتا تھا،اور بعد کے ادوار میں یہ طریقہ کم ہوتا گیا تو خصوصیت سے محافلِ میلاد کے انعقاد کی ضرورت محسوس کی گئی اور عوام کی فکری تربیت نیز ایمانی جِلا کا سامان کیا گیا… اور اسلاف نے اس کو کیا ہی نہیں بلکہ اس کے انعقاد کی ترغیب و تلقین بھی کی ۔ بہر کیف! ذکر رسول ﷺ کی محافل کا اہتمام ایمان کی جِلا کا باعث ہے اور عامۃ المسلمین میں مسرتوں کی صبحِ میلاد پر اہتمام یقیناً نیکی کی ترغیب ہے جس کی اِس زمانے میں زیادہ ضرورت ہے۔ اعلیٰ حضرت نے دل پذیر بات کہی؎
جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
٭ ٭ ٭
حوالہ جات:
(۱) القرآن الکریم؛ سورۃ یونس:۵۸/ترجمہ کنزالایمان
(۲) نفیس احمد مصباحی، مولانا، کشف بردہ، النمجمع القادری مبارک پور۲۰۰۵ء، ص۲۱۸
(۳) القرآن الکریم؛ سورۃ آل عمران:۱۶۴/ ترجمہ کنزالایمان
(۴) القرآن الکریم؛ سورۃ آل عمران:۸۱/ ترجمہ کنزالایمان
(۵) یٰس ٓ اختر مصباحی، جشن عید میلادالنبی ﷺ، رضا اکیڈمی ممبئی۲۰۰۷ء، ص۲۰
(۶) جلال الدین سیوطی، امام، حسن المقصدفی عمل المولد(میلادِ سیوطی)، دارالعلوم جائس رائے بریلی۲۰۰۴ء، ص۲۶
(۷) عماد الدین ابن کثیر، مولد رسول اللہﷺ(میلاد ابن کثیر)، دارالعلوم جائس رائے بریلی۲۰۰۴ء، ص۲۰