اذان فقير : ايك مفقود شخصيت

اس عالم رنگ و بو میں کئی ہستیاں خلوص و للہیت اور خدمت خلق کے ساتھ ہی خدائے لم یلد و لم یولد کی خوش نودی  اور  اس کی رضامندی کے حصول کے لئے اپنی زندگی صرف کر دی مثلا غوث اعظم، خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ علی ہجویری وغیرہ وغیرہ۔ ان کی حسن تعلیمات و تعاملات اور عملی زندگی کو دیکھ کر علاقائی باشندگان بڑے متاثر ہوتے اور ان کی طرف مائل ہوئے بغیر نہ رہ پاتے۔ خدائی تعلیمات یعنی اسلام ایک ایسا صاف و شفاف طریقہ ہے جس کی ہدایت و تربیت، رہبری و رہنمائی، قدر ومنزلت، اہمیت و افادیت، مذھب وغیر مذھب حتی کے ہر عام و خاص کے لئے یکساں مفید ہے۔ اسلامی  احکامات و تعلیمات کو حقیقتاً اپنی زندگی کا نمونہ عمل بنانا گویا دنیوی واخروی مشاکل و مصائب،  دقت و نحوست، پکڑ دھکڑ اور پوچھ گچھ سے نجات پانا۔  ہزاروں صوفیاء و اولیاء اسلام کے بے مثال قواعد و قوانین  کے  مطابق اپنی زندگی بسر کی اور ولایت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔مشرقی ہندوستان کے ریاست آسام بمقام سیوساگر میں ایسی ہی ایک مفقود اور عظیم ولی کامل کی پناہ گاہ ہے جنھیں عوام الناس اذان فقیر کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے جبکہ ان کا اصل نام شاہ میران ہے۔

ولادت باسعادت:

تاریخ ولادت کا کوئی پر اعتماد اور پر یقین علم حاصل نہ  ہوسکا البتہ انٹرنیٹ اور دوسرے مراجع و مصادر :سے پتہ لگتا ہے کہ وہ ١٦١٠ء یا ١٦٩٠ء میں بغداد، عراق میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی کافی ذھین اور تیز فہم ہونے کے ساتھ منکسر المزاج، عاجزی و انکساری جیسے اوصاف کے حامل تھے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے غرض سے علاقائی مدرسہ کا رخ کیا، پھر اعلی تعلیم کہاں اور کس سے حاصل کئے اس کا بھی ذکر دریافت نہ ہو سکا۔

احوال و کوائف: 

تاریخ کے مطابق اذان فقیر بغداد، عراق میں نظام الدین چشتی کے عظیم پیروکار تھے۔ دعوتی خدمات انجام دینے کے غرض سے ہندوستان تشریف لائے۔ سر زمین ہندوستان پہنچتے ہی اجمیر کا رخ کرتے ہیں اور بعض ایام گزارنے کے بعد اپنے پیر کامل اور  مرشد اعلی  نظام الدین اولیاءکے درگاہ  دہلی کی طرف چل پڑتے ہیں۔ مرشد سے فیوض و برکات کے حصول کے بعد آسام کی راہ لیتے ہیں۔
آسام میں جھالت اور کفر و ضلالت  کا بول بالا تھا خدا کا نام لینے والا دور دور تک نظر نہ آتا تھا۔ 

عراق و افغان اور خیبر کو پار کرتے ہوئے ہندوستان پہنچے۔ آسام کے ثانوی تعلیمی بورڈ کے آسامی کتاب کے مطابق آسام شاہ میران عرف اذان فقیر کے آمد سے قبل لفظ اسلام سے واقف نہ تھا۔ شاہ میران آسام میں اسلام کی تعلیمات کو پھیلانے اور رائج کرنے میں اہم کردار ادا کئے۔ ان کی آمد سے آسام لفط اسلام سے واقف ہوا۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آسام کو اسلامی اذان سے روشناش کرایا۔ انھیں اذان فقیر کا لقب اس لئے ملا کیونکہ وہ پنج وقتہ اذان دیتے اور لوگوں کو نماز کے لئے بلاتے۔ 

ابتدائی ایام میں کافی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگ انہیں دیوانہ، مجنون اور سرگرداں جیسے بے معنی القابات سے نوازے۔ قرآنی آیت  "والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا  و إن الله لمع المحسنين"  اور فرمان رسول   دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم " لا تخف في الله لومة لائم"  کو مشعل راہ بنا کر دعوت و تبلیغ کا فریضہ بخوبی انجام دیتے رہے۔ بالآخر نوح علیہ السلام کی مثل طویل مدت  کے دعوت و تبلیغ کے باوجود چند گنے چنے پسماندہ لوگ ایمان کی دولت سے شرف یاب ہوئے جن کی بدولت آج آسام میں اسلام کے مزید پھول کھل رہا ہے۔

ذکر و جاری:

زبان فارسی کے بڑے تجربہ کار اور ماہر عالم تھے۔ آمد آسام کے بعد یہاں کی تہذیب و تمدن سے روشناس ہوئے اور آسامی زبان پر  مکمل درک و دسترس حاصل کی۔  آسامی زبان میں کئی نظمیں لکھیں  جبکہ " ذکر و جاری" سب سے زیادہ مشہور ہوا جو آج  بھی عوام الناس کے زبان پہ رواں دواں ہے۔ نظم کی مقبولیت کی سب سے اہم وجہ یہ بیان کی جاتی ہے "ذکر و جاری"  آسام کا پہلا  لحن کے ساتھ گایا جانے والا اسلامی مرتب نظم تھا۔  "ذکر و جاری" مخلوط زبان پر مشتمل  ایک شعری مجموعہ ہے اس میں عربی، فارسی و آسامی اور دیگر زبان کے الفاظ جا بجا نظر آتے ہیں۔  یہ شعری مجموعہ سلیس و  سادہ اور عام فہم الفاظ کا سنگم ہیں۔ آسام میں مذھب اسلام کی وسعت میں "ذکر و جاری" کا اہم رول رہا۔ آسام کے عظیم فنکار اور قدآورشاعر شنکر دیوا کے رسمی و غیر رسمی نظمیں بھی انھیں ازبر تھیں۔ اسلامی تعلیم و تربیت سے زیادہ عبادت و ریاضت کے ذریعہ اسلام کا دائرہ وسیع کیا۔ "ذکر و جاری" دونوں مختلف اشیاء ہیں۔ یہاں بھی ذکر کے عمومی معنی خدا کو یاد کرنے کے  ہی ہیں جبکہ جاری کو مرثیاتی شعر و شاعری بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کربلا کے واقعات اور حسن و حسین کے فضائل و مناقب بیان کے گئے ہیں۔

ازدواجی زندگی:

 آسام کے  رسم و رواج، نقل وحرکت، آمد و رفت، قواعد و ضوابط سے متاثر ہو کر آسام میں ہی شادی کا فیصلہ کیا۔ آسام جنپور میں واقع رنپور کے باشندہ عثمان غنی خندکاد کی بیٹی سے نکاح سنت کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دو صاحبزادوں سے نوازہ اول کا نام شاہ خواص جبکہ دوسرے کا نام شاہ میر قاسم تھا۔ ہندوستان کے سفر پر اپنے بھتیجے نبی صاحب کو بھی اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے ساتھ لائے۔
 
ابتلاء و آزمائش:

مقام درونی کے باگ ڈور سنبھالنے والے حاکم روپوئی اور خادم فتح اللّٰہ دونوں اذان فقیر کو غیر قانونی مذھب کی ترویج و اشاعت کے جرم میں قید کر لئے اور بعض عرصے بعد ان کی آنکھیں نکال دی۔ حاکم اعلی کو یہ بات معلوم ہونی تھی کہ حاکم روپوئ پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتا ہے اور اذان فقیر کو برہمپترا اور دیخو ندی کے سنگم کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد بنا دیتا ہے جہاں اذان فقیر اپنے حواریوں کے ساتھ تادم حیات رہتے ہیں۔

وصال: 

ایک سو بیس کی طویل  عمر کی زندگی بسر کرنے کے بعد  ضلع سیوساگر کے قریب ان کی وفات ہوئی۔١٧٣٠ء میں ان کا وصال ہوا۔ ان کا مقبرہ آج بھی مرجع خلائق بنا ہوا عوام الناس کو روحانی فیوض وبرکات سے ہمکنار کر رہا ہے۔ اللہ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔آمین


حوالہ جات:

١) وکیپیڈیا
٢)"ذکر و جاری" آسامی صوفیانہ نعت و گیت ٢٠٠٧
٣)مشرقی ہندوستان  کے صوفی تحریک مصنف محمد یحیی تمیزی ٢٠٠٨
4) A Socio-economic & Cultural history of Medival Assam by Satyandernath Sharma
 2008
5) The Brahmaputra Beckons by Brahmaputra Beckon Publication Committee 2008
6) Akhomiya Sahitya Chayanika, The  Board Of Secondary Education,  Assam, 2019

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter