آم :موسم گرما کے لیے عظیم قدرتی سوغات
جیسے ہی موسم گرما شروع ہوتا ہے تو قدرت کی طرف سے ایک سے ایک قدرتی سوغات بصورت پھل اور مشروبات کے عطا ہوتے ہیں۔ جہاں انسان گرمیوں کی لو سے نڈھال وپریشان رہتا ہے وہیں ٹھنڈے مزاج کے پھل اور رنگ برنگے ٹھنڈے اور لذیذ ذائقے دار مشروبات سے محظوظ ہوتا ہے۔ اس موسم کی ایک انوکھی ونرالی اور انمول ونفیس قدرتی تحفہ آم ہے۔جیسے ہم پھلوں کا بادشاہ بھی کہتے ہیں۔لفظ آم سنتے ہی منہ میں پانی چھوٹنے لگتا ہے۔ رسیلے ، لذیذ وذائقے دار اور مٹھے آم کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں آم کی پیداوار دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ علم زراعت کے محققین کے مطابق آم کی پیداوار میں پہلا نمبر ہندوستان کا ہے، انڈونیشیا دوسرے نمبر پر آتا ہے، چین کا تیسرا، میکسکو کا چوتھا جبکہ پڑوسی ملک کا فہرست میں پانچواں نمبر ہے۔ ہندوستان میں آم کی پیداوار 21 ملین ٹن سے زیادہ ہوتی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ ریاست کرناٹک میں آم کی پیداوار زیادہ ہمارے ضلع یعنی کولار میں ہوتی ہے۔ ملباگل، سرینیواس پور، کولار اور اطراف واکناف میں گوناگوں قسم کے آم کی کھیتی ہوتی ہے۔ کچھ لذیذ آم باہر دیش کو بھی بھیجا جاتا ہے۔کچھ آم ایسے بھی ہیں جو ضلع کے باہر کہیں نہیں ملتے۔
جب اس مضمون کا ذہنی خاکہ تیار ہورہا تھا تب اچانک حاشیہ ذہن پر مشہور شاعر شاہین اقبال اثر کا شعر ذہن میں گردش کرنے لگا ذوقِ عام وشوق آم کے لیے آپ خدمت میں نذر ہے۔ وہ کہتے ہیں۔
ہو رہا ہے ذکر پیہم آم کا
آرہا ہے پھر سے موسم آم کا
اگر اردو ادب کی داستان گھنگالیں گے تو آم کے سلسلے میں آپ کو دلچسپ وپرمزاح و رنگین باتیں ان شاء اللہ حاصل ہوں گی۔اردو دنیا کے مشہور شاعر اکبر الہٰ آبادی آم کے بڑے شوقین اور عاشق صادق تھے۔آم کے سلسلے میں اپنے دوست منشی نثار حسین کو خط لکھتے ہوئے آم نامہ بھی لکھ کر بھیجتے ہیں۔
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے
اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے
ایسا ضرور ہو کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ اگرچہ بیس تو دس خام بھیجئے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الہ آباد مرے نام بھیجئے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہوگی پہلے مگر دام بھیجئے
اردو شاعری کا مشہور و زندہ جاوید نام ہے مرزا اسد اللہ خان غالب کا۔ آپ بھی آم کے بڑے دلدادے تھے۔شوق سے آم کھایا کرتے تھے۔اسی سلسلے میں ایک لطیفہ بھی سن لیجئے مرزا غالب کے دوست ان کی آم سے محبت جانتے تھے۔ ایک مرتبہ گلی کے کونے پر بیٹھے تھے ایسے میں سامنے سے چند گدھے گزرے۔ وہیں آم کی گٹھلیوں اور چھلکوں کو دیکھ کر ایک گدھا رُکا اور گٹھلیوں اور چھلکوں کو سونگھ کر آگے بڑھ گیا۔ غالب کے دوست نے ازراہِ تفنن کہا مرزا صاحب آپ نے دیکھا کہ ’گدھے بھی آم نہیں کھاتے‘۔ غالب مسکرائے اور بولے ’ہاں گدھے آم نہیں کھاتے۔ اردو ادب میں آم سے متعلق چند مشہور محاورے بھی موجود ہیں جیسے آم کے آم گٹھلیوں کے دام، آم کھانے سے کام یا پیڑ گننے سے،آم بوؤ آم کھاؤ، آم میں بور آنا وغیرہ یہ محاورے اس بات کی طرف عکاسی کرتا ہے کہ آم اور اردو ادب کا گہرا تعلق موجود ہے۔ بات اردو سے متعلق آگئی تو ہم نے ذوقِ سُخن کا لحاظ کرتے ہوئے چند ادبی پہلو پر روشنی ڈال دی۔ اگر آم کی غذائیت کی بات کریں تو غذائی ماہرین کے مطابق آم میں 20 سے زائد وٹامنز، منرلز اور معدنیاتی اجزا پائے جاتے ہیں۔ طبی لحاظ سے آم میں بے شمار خصوصیات پائی جاتی ہیں، آم ایک ایسا پھل ہے جو کولن کینسر، ذیابطیس اور اس کے ساتھ دل کی بیماریوں جیسے خطرناک امراض سے حفاظت میں مدد کرتا ہے۔
آم کھانے کے چند اہم فوائد بھی سن لیجئے۔ تاکہ اب کبھی آم کھائیں تو شوق وذوق کے ساتھ کھائیے۔
1) آم انسانی جلد کی شفافیت کے لیے کارآمد ہے۔
2) انسان کے جسم میں موجود غیر ضروری چربی اور موٹاپا کو کم کرتا ہے۔ جس سے انسان بہت سارے مہلک بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
3) آم کا استعمال آنتوں اور خون کے کینسر کے خطروں کو کم کرتا ہے۔
4) انسان کی بصارت کے دھندلے پن کو ختم کر کے بینائی کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔
5) جسم کی ہڈیوں میں وٹامن اور کیلشیم کی کمی کو دور کرکے ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔
6) مدافعتی نظام یعنی immunity power کو بڑھاتا ہے۔
7) آم زیادہ تر دوسرے پھلوں کی طرح پانی اور ریشہ سے مالا مال ہوتا ہے اور یہ دونون اجزا قبض کو روکنے میں مدد کرتے ہیں۔
8) آم میں آئرن کی کافی مقدار ہوتی ہے جو انیمیا کی تکلیف میں مبتلا لوگوں کے لیے ایک زبردست قدرتی علاج ہے۔
9) آم ایک ایسا پھل ہے جو کہ جسم میں بڑھتے ہوئے کولیسٹرول کی کمی کو پورا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہےاور کولیسٹرول کے توازن کو معتدل رکھتا ہے۔
10) آم کھانے سے آپ کے جسم کا اندرونی نظام اچھا خاصا سرد ہو جاتا ہے۔ جو آپ کو گرمی کی شدت اور لو لگنے سے محفوظ رکھتا ہے۔ پھر گھموری کی شکایت بھی نہیں ہوگی۔
11) آم کے گودے میں بیٹا کیروٹین موجود ہوتا ہے۔ جو کہ دمہ جیسی مہلک بیماری کی نشونما کو روکنے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
12) آم میں پوٹاشیم اور میگنیشیم پائے جاتے ہیں جو خون کی شریانوں کو پر سکون رکھتے ہیں۔ اور جریان دم یعنی blood circulation کو بہتر بنانے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
13) آم میں کافی مقدار میں ایسے وٹامنز پائے جاتے ہیں جو دماغ کی بہترین نشونما میں مفید سمجھے جاتے ہیں۔
14) وزن میں اضافہ کرنے کے لیے آم کو دیگر پھلوں کی نسبت نہایت مؤثر سمجھا جاتا ہے۔ ایک سو پچاس گرام آم میں چھاسی کیلوریز پائی جاتی ہیں جو آسانی کے ساتھ جسم میں جذب ہوجاتی ہے۔ اور کمزور ولاغر انسان بکثرت آم کے استعمال سے قوی اور مضبوط ہوجائے گا۔
15) حاملہ عورتوں کی صحت کے لیے بھی بے انتہا مفید قرار دیا جاتا ہے، ڈاکٹرز حاملہ خواتین کو وٹامنز اور آئرن کے لیے گولیاں دیتے ہیں جبکہ آم کو بطور بہترین سپلیمنٹس بھی لیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی آم کے بے شمار فوائد موجود ہیں۔ جو غذائی ماہرین سے رابطہ کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ بالخصوص موسم گرما میں آم کا استعمال حد درجہ حرارت کو کم کرنے میں مفید ثابت ہوتا ہے۔ شاید انہیں وجوہات کی بناء پر قدرت نے موسم گرما میں ہمیں آم یعنی پھلوں کا بادشاہ عطا کیا ہے۔آم کے چند اقسام بھی سن لیجئے تاکہ جب آپ بازار جائیں تو ہر دن الگ الگ آم خرید کر مختلف آموں کا مزہ لیں۔ آم کی سیکڑوں اقسام میں سے تجارتی پیمانے پر صرف 25 سے 30 اقسام کاشت کی جا رہی ہے۔ ان اقسام میں چونسہ، سندھڑی، لنگڑا، دسہری، انور رٹول، سرولی، ثمر بہشت، طوطا پری، فجری، نیلم، الفانسو، الماس، سنوال، سورکھا، گلاب خاص، سنیرا، شکر گھٹلی اور دیسی شامل ہیں۔ یہی اقسام اکثر وبیشتر بازاروں میں دستیاب بھی ہوتے ہیں۔ لہذا اس موسم گرما میں آم کا بکثرت استعمال کریں اور ڈھیر ساری بیماریوں سے محفوظ رہیں۔ اور جن حضرات کو ڈاکٹر یا طبیب نے آم کھانے سے منع کیا وہ ضرور اس کے استعمال سے اجتناب کریں۔ فوائد ان لوگوں کے لیے ہیں جو صحت مند و تندرست ہیں جو مختلف بیماریوں کے لپیٹ میں ہیں وہ ڈاکٹر کے صلاح ومشورے کے مطابق ہی آم کا استعمال کریں۔ورنہ لینے کے دینے پڑھائیں گے۔ریاست کے اکثر وبیشتر علاقوں میں بارش کی کمی کی وجہ سے بہت لوگ پریشان ہیں۔ اللہ تعالی اپنی رحمت سے سب کو مالامال فرمائے اورصحت و تندرستی کے ساتھ اس کی عبادت کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین۔