دہلی پولیس نے فسادات کے دوران تشدد، زدوکوب اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں جیسے سنگین جرم کیے: ایمنسٹی رپورٹ

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دہلی پولیس پر دہلی فسادات کے دوران حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے اور یہاں تک کہ "فسادیوں کے ساتھ تشدد میں ملوث ہونے" کا الزام عائد کیا ہے۔ اس نے وزارت داخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے عہدیداروں کے خلاف اس طرح کے تمام الزامات کی "فوری ،مکمل اور آزادانہ تحقیقات" شروع کرے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے فسادات سے بچ جانے والے 50 سے زائد افراد ، چشم دید گواہوں ، وکلاء، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ریٹائرڈ پولیس افسران کا انٹرویو لیا۔ فسادات کے دوران دہلی پولیس کے کردار کا تجزیہ کرنے کے لئے اس نے ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر متعدد ویڈیوز کا بھی تجزیہ کیا۔ ان ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ دہلی پولیس نے فسادیوں کے ساتھ پتھراؤ کیا ، لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ، پرامن مظاہرین کے  احتجاجی مقامات کو نابود کیا اور دہلی میں فسادات برپا کرنے والے مشتعل افراد کے ساتھ خاموشی اختیار کی۔

تنظیم نے کہا ، "دہلی پولیس کے اہلکار 2020 میں دہلی میں ہونے والے فسادات میں ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے شریک تھے ، لیکن پچھلے چھ مہینوں میں دہلی پولیس کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں ایک بھی تحقیقات نہیں کھلیں۔" فسادات سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی اس یقین دہانی کے برخلاف کہ پولیس نے "قابل ستائش کام" کیا ہے ، این جی او نے پایا کہ یہ تشدد "انسانی حقوق کی پامالی کا بالکل مستثنیٰ نمونہ  ہے"۔

یہ رپورٹ خاص طور پر دہلی پولیس کی سرگرمیوں پر مبنی ہے

ایمنسٹی نے کہا کہ اس کی تفتیش خاص طور پر دہلی پولیس کے بارے میں ہے کیونکہ فروری میں ہونے والے تشدد کے دوران پولیس کی طرف سے حقوق انسانی کی پامالی کی ابھی تک کوئی تحقیقات نہیں ہوسکی ہیں، جو کہ بہت ضروری ہیں۔

شمال مشرقی دہلی کے  ہندوؤں اور مسلمانوں، دونوں گروہوں نے دعوی کیا کہ  ہماری جانب سے  مدد کے لئے کی جانے والی  درخواستوں کا جواب دینے میں پولیس مکمل ناکام رہی ہے۔ ایک زندہ بچ جانے والے کملیش اپل نے  تنظیم کو بتایا ، "ہجوم نے تالے توڑ کر میرے گھر کو جلادیا۔ ہم وہاں گذشتہ 22 سالوں سے مقیم تھے اور انہوں نے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ ہم نے بہت محنت اور نہایت لگن کے ساتھ اپنا گھر تعمیر کیا تھا لیکن اب وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم نے پولیس کو فون کرنے کی کوشش کی ، ہمیں لگا کہ وہ آئیں گے اور امن و امان قائم کریں گے، لیکن ہمارے علاقے میں آنے میں انہیں تین دن سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کی توثیق

سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیے گئے ویڈیوز میں حقوق کی خلاف ورزیوں کی تصدیق کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے  ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرائسز ایویڈنس لیب کے ساتھ اشتراک کیا جس نے "انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تصدیق اور تجزیہ کرنے کے لئے" اوپن سورس اور ڈیجیٹل تفتیشی ٹولز کا استعمال کیا۔ " لیب نے ان ویڈیوز کے وقت ، تاریخ اور مقامات کی تصدیق کرکے انکی توثیق کی۔

لوگوں سے انٹرویو اور سوالات کے بعد  غیرقانونی نظربندی اور انتقامی تشدد کی  واضح گواہیاں ملی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ، اویناش کمار نے کہا ، "دہلی پولیس نے مرکزی وزارت داخلہ (ایم ایچ اے) کو رپورٹ کیا اور حیرت کی بات ہے کہ ایم ایچ اے کی جانب سے ابھی تک دہلی پولیس کو جوابدہ ٹھہرانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔

رپورٹ میں خاص طور پر اس پر زور دیا گیا ہے کہ  ایک جانب تو حاملہ طالبہ صفورا زرگر کو پولیس نے غیرقانونی سرگرمیوں سے بچاؤ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا اور کوویڈ 19 کے وبا کے دوران انکے فسادات میں مبینہ کردار کے الزام میں انہیں جیل بھیجا تھا ، لیکن اب تک  نفرت انگیز تقاریر کرنے والے کسی واحد سیاسی لیڈر کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی ہے جنہوں نے فسادات کو فروغ دینے میں تشدد کی حمایت کی تھی ۔

"ہمیں ڈسٹرب مت کرو"

فسادات میں بچ جانے والی شبنم ، جن کا گھر جلا دیا گیا تھا ، نے بتایا کہ جب اہل خانہ نے پولیس کو فون کیا تو انہوں نے کہا کہ "ہمیں ڈسٹرب مت کرو". شیو وہار علاقے کے ڈی آر پی کنوینٹ اسکول کے نگراں روپ  سنگھ نے بتایا کہ جب اسکول پر حملہ کیا جارہا تھا تو پولیس کو متعدد بار فون کرنے کے باوجود انہیں کوئی مدد نہیں ملی۔

سماجی کارکن اور سابق آئی اے ایس افسر ہرش مانڈر نے  بتایا کہ اگر پولیس اور ریاست یہ نہیں چاہتے تو کچھ گھنٹوں سے زیادہ تک کوئی ہنگامہ آرائی نہیں ہوسکتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ فسادات ہونے کا انتظار کر رہے تھے اور اس بات کو عام لوگ بھی جانتے ہیں ، اس علاقے کا ہر شخص  جانتا ہے۔ انہوں نے کہا ، "جن لوگوں نے (نفرت انگیز) تقاریر کیں اگر ان کو حراست میں لیا جاتا ، اگر پولیس (تشدد پر اکسانے والوں پر) پرزور ردعمل کرتی ، تو ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔"

اجیت دوول کی یقین دہانی بے معنی

اس رپورٹ میں اس دعوے پر بھی سوال اٹھایا گیا تھا کہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کے 26 فروری کو شمال مشرقی دہلی دورے  کے بعد یہ تشدد بند ہوگیا تھا۔

ایک فرد ، جس کی شناخت بابو خان کے نام سے ہوئی ہے ، نے این جی او کو بتایا کہ دوول کے امن وامان کی یقین دہانی کے  اگلے دن ، ایک ہجوم نے اس کے گھر آکر ،  اسکے بیٹوں کو موٹرسائیکل پر لٹایا اور ان کے سر اور چہرے پر متعدد وار کیے۔ اس تشدد میں اسکے دونوں بیٹے ہلاک ہوگئے۔

طبی سہولیات کا فقدان

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تشدد بڑھتے ہی بیشتر پرائیویٹ ڈاکٹرس اپنے کلینک بند کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس طرح، بہت سارے معاملات میں تشدد سے متاثر افراد کے لئے کوئی علاج دستیاب نہیں تھا۔ یہ مسئلہ فساد کرنے والوں نے پیدا کیا تھا اور انہوں نے ہی سڑکیں بند کردیں، اور ایمبولینس کو داخلے کی اجازت نہیں دی ۔  اور ان تمام اقدامات کو روکنے سے پولیس قاصر رہی۔

تحویل میں زدو کوب

این جی او نے یہ بھی کہا کہ بہت سے افراد کو پولیس تحویل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ تشدد سے بچ جانے والے  اطہر نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ جب وہ گھر واپس جارہے تھے، پولیس نے اپنی وین روک کر ان سے پوچھا کہ آیا وہ ہندو ہیں یا مسلمان، جب انہوں نے کہا کہ وہ مسلمان ہیں، تو انہیں  وین میں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا ، جس میں قریب 25 افراد پہلے سے موجود تھے۔

اطہر نے کہا ، "وہ کہتے رہتے تھے کہ تجھے" آزادی چاہیے تھی نا، یہ لے آزادی "اوراس کے ساتھ مارتے بھی تھے۔اگلے چار دنوں تک ہم پر تشدد کیا گیا۔ انہوں نے مجھے اور دوسروں کو لاٹھیوں اور بیلٹوں سے پیٹا۔ پھر 28 فروری کو انہوں نے مجھے عدالت میں پیش کیا۔ میں دو ہفتے بعد ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔"

رپورٹ میں اترپردیش کے پولیس کے ریٹائرڈ ڈائریکٹر جنرل وبھوتی نارائن رائے کے حوالے ایک بہت اہم بات لکھی، انہوں نے کہا تھا کہ "ریاست کی اجازت کے بغیر 24 گھنٹوں سے زیادہ اجتماعی فسادات ہو ہی نہیں  سکتے۔ اگر فساد چوبیس گھنٹے سے زیادہ جاری رہے تو آپ کو ریاست کے مقاصد پر سوال اٹھانا پڑے گا۔"

رپورٹ کے مطالبات

ایمنسٹی نے قانون نافذ کرنے والے عہدیداروں کے ذریعہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے تمام الزامات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ساتھ ساتھ آزاد اور شفاف تحقیقات کی بھی سفارش کی ہے تاکہ وہ تشدد کو روکنے اور اس کی مدد کرنے میں ناکامی میں دہلی پولیس کے کردار کا جائزہ لے۔

این جی او نے فسادات سے متاثرہ برادریوں کے بتائے گئے تمام پولیس افسران کو اس وقت تک معطل کرنے کا مطالبہ کیا جب تک انکی مکمل تفشیش نہیں ہوجاتی۔

ایمنسٹی نے وزیر اعظم اور وزارت خارجہ سے وزارت امور سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کو منظوری دیں جس کے تحت ملک کو "ریاستی قوانین کے مطابق  تشدد کو جرم  ٹھہرانے ، ریاست کے اندر ہونے والے تشدد کے واقعات پر دائرہ کار قائم کرنے، تشدد کو ایک ناقابل معافی جرم قرار دینے ، ریاست کے اندر تشدد کے الزامات کی تحقیقات کرنے اور تشدد کا نشانہ بننے والے متاثرین کے لئے  قابل عمل علاج فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

محمد حسن ہدوی

پوسٹ گریجویٹ، دارالہدی اسلامک یونیورسٹی

لیکچرار، (شعبہ اسلامیات و عصریات) قوت الاسلام عربی کالج، ممبئی۔

E-mail: contactinghasan@gmail.com

فون نمبر: 8788395839

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter