کلام نوریؔ میں  عقیدۂ ختم نبوت کی ضیاباریاں
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے  : 
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ ۔
’’محمدتمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔‘‘ 
( سورۂ احزاب: ۳۳/۴۰،ترجمہ: کنزالایمان)
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا یعنی خاتم الانبیاء ہونا اجماعی عقیدہ ہے، اور آفتاب نیم روز کی طرح روشن و ظاہر۔ انبیاے کرام علیہم السلام نے بشارتیں دیں اور نوید بھی کہ نبی آخر الزماں آتے ہیں۔ چنان چہ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۳۱ء کی شائع کردہ یوحنا کی انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے مرقوم ہے : 
’’لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیوں کہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔‘‘
صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی (م۱۳۶۷ھ / ۱۹۴۸ء ) فرماتے ہیں:
’’اس میں حضور کی بشارت کے ساتھ اس کا بھی صاف اظہار ہے کہ حضور خاتم الانبیاءہیں۔ آپ کاظہور جب ہی ہوگا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تشریف لے جائیں۔ اس کی تیرہویں آیت ہے: ’’لیکن جب وہ یعنی سچائی کی روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمھیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ اس آیت میں بتایاگیا کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر دین الٰہی کی تکمیل ہوجائے گی اور آپ سچائی کی راہ یعنی دین حق کو مکمل کردیں گے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔‘‘ 
(خزائن العرفان، مشمولہ کنزالایمان، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)
عقیدۂ ختم نبوت پر جب بھی شب خون مارنے کی کوشش ہوئی۔ علماے اُمت، محدثین اور فقہاے کرام نے کسی بھی فتنے کا منہ توڑ جواب دیا۔ ابتدا میں ہی بعض جھوٹے دعوے دار نمودار ہوئے جنھیں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور صحابۂ کرام نے کیفر کردار تک پہنچایا۔
عہدِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا (۱۲۷۲ھ/۱۸۵۶ء- ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء ) بڑا ہی پر آشوب تھا۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی تھیں۔ نت نئے فتنے جنم لے چکے تھے۔ اسلامی عقائد و افکار کو متزلزل کرنے کے لیے مذہبی، تعلیمی، سائنسی، سیاسی، اقتصادی اور نظریاتی حملے وارد تھے۔ ان دینی فتنوں میں سب سے خطرناک فتنہ ’’فتنۂ دیوبند‘‘ تھا۔ عناصرِ دیوبند، اہانتِ رسالت کا ارتکاب کرکے ایک عظیم فتنے کے لیے راہ استوار کرچکے تھے حتیٰ کہ جماعت دیوبند کے سرخیل مولوی قاسم نانوتوی نے اپنی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کسی اور نبی کاپیدا ہونا ممکن مان لیا تھا۔ اس طرح دیوبند کی اس تھیوری پر چل کر قصبہ قادیان ضلع گورداس پور صوبہ پنجاب سے مرزا غلام احمد قادیانی نے ۱۹۰۰ء میں دعویِ نبوت کیا، جس کی پشت پناہی حکومتِ برطانیہ نے کی اور ہنوز قادیانیت کے استحکام کے لیے انھیں مواصلاتی قوت اور سٹیلائٹ ٹکنالوجی کی سہولت دے دی گئی ہے ۔ دنیا کے ان خطوں میں جہاں مسلمانوں پر ہر طرح کے جور و ستم روا رکھے گئے ہیں، قادیانیوں کوتبلیغ کی کھلی آزادی حاصل ہے- حتیٰ کہ یہاں کے صاحبانِ اقتدار بھی مسلم دُشمنی میں قادیانیت کی کھلی پشت پناہی کر رہے ہیں-
اس فتنہ کے سد باب میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے تین رسائل تصنیف فرمائے نیز ختم نبوت کی تشریح میں دو کتابیں لکھیں۔ جب کہ "فتاویٰ رضویہ" میں کثیر صفحات انھیں عناوین پر موجود ہیں۔ یوں ہی فتاویٰ حسام الحرمین میں نوپید فرقوں بشمول فرقۂ قادیانی پر حکم شرع نافذ کیا گیا ہے۔اور ان کے کفر پر علماے حرمین نے تصدیقات ثبت کی ہیں- امام احمد رضا کے تلامذہ، خلفا اور دونوں فرزندانِ گرامی حجۃ الاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا خان قادری (م ۱۳۶۲ھ / ۱۹۴۳ء) اور حضور مفتی اعظم مولانا شاہ محمد مصطفیٰ رضا نوریؔ نے بھی عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اور فتنۂ قادیانیت کے سدِ باب کے لیے تحریری و تصنیفی خدمات انجام دیں۔ اس مضمون میں اپنے موضوع کی رو سے حضور مفتی اعظم مولانا شاہ محمد مصطفیٰ رضا نوریؔ علیہ الرحمۃ والرضوان کی نعتیہ شاعری میں عقیدۂ ختم نبوت کے بیان میں جو مضامین نظم ہوئے ہیں ان کااجمالی جائزہ لیں گے۔
نعت کا موضوع بڑا وسیع ہے ۔اربابِ ادب کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل و خصائل، سیرت و شمائل کے مقدس اذکار نیز جمال جہاں آرا کی ضیا باریوں کے احوال پر نظم ہو یا نثر وہ نعت ہی ہے- حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا آپ کے فضائل سے ہے لہٰذا اس کے منکر کا احتساب یا تردید بھی نعت کے موضوعات میں ضرور شامل ہے۔
حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے نعتیہ مجموعہ ’’سامانِ بخشش ۱۳۵۴ھ‘‘ میں نادر تشبیہات، دلچسپ استعارات، صنعات، عروضی خوبیوں نیز فنی خصوصیات کا استعمال بجا طور پر موجود ہے، تاہم یہاں عقیدۂ ختم نبوت کے مضامین پر گفتگو مقصود ہے۔ ذیل کے اشعار دیکھیں جن میں اس عقیدے کی جلوہ گری بھی ہے اور اسلوب کی دل کشی بھی  ؎
تم ہو فتح باب نبوت
تم سے ختم دورِ رسالت
ان کی پچھلی فضیلت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک وسلم 
صلی  اللہ  صلی  اللہ
موج اول بحر رحمت
جوش آخر بحر رأفت
فیض وجود و سخاوت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک وسلم
 صلی  اللہ  صلی  اللہ
تم ہو اول تم ہو آخر، تم ہو باطن تم ہو ظاہر
حق نے بخشے ہیں یہ اسما صلی اللہ علیک و سلم
 
تمھیں سے فتح فرمائی تمھیں پر ختم فرمائی
رسل کی ابتدا تم ہو، نبی کی انتہا تم ہو
تمھیں باطن تمھیں ظاہر تمھیں اول تمھیں آخر
نہاں بھی ہو عیاں بھی مبتدا و منتہا تم ہو
تمہارے بعد پیدا ہو نبی کوئی نہیں ممکن
نبوت ختم ہے تم پر کہ ختم الانبیاء تم ہو
ان اشعار میں کھلے لفظوں خاتمیتِ سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم پر عقیدے کی پختگی کا اظہار موجود ہے۔ اور اس صفت خاتمیت کے بیان میں فتح باب نبوت، ختم دورِ رسالت، موجِ اول جوش آخر، بحر رحمت، بحر رأفت، اول و آخر، رسل کی ابتداو انتہا، ختم الانبیاء جیسی اصطلاحات برتی گئی ہیں۔ ان کے توسط سے ختم نبوت کا مبارک مضمون دل آویز انداز میں باندھا گیا ہے۔
حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے حمدیہ کلام ’’اذکار توحید ذات، اسما و صفات و بعض عقائد‘‘ میں عقیدۂ ختم نبوت کے جلوے آشکار ہوئے ہیں۔دو بند ملاحظہ فرمائیں؎
اپنے مظہر اول کو
اپنے حبیب اجمل کو
پہلے نبی افضل کو
پچھلے مرسل اکمل کو
لا الہ الا اللہ آمنا برسول اللہ 
موج اول بحر قدم
موج آخر بحر کرم 
سب سے اعلیٰ اور اعظم
سب سے اولیٰ اور اکرم
لا الہ الا اللہ آمنا برسول اللہ
بعض اشعار میں اشارۃً اور کنایۃً فصائل وشمائل نبوی کے ساتھ ساتھ ختم نبوت کا مضمون بھی نظم ہوا ہے، ان اشعار کا مطالعہ فرمائیں؎
نور علم و حکمت والے
نافذ جاری حکومت والے
رب کی اعلیٰ خلافت والے
تم پر لاکھوں سلام
تم  پر  لاکھوں  سلام
سارے رسولوں سے تم برتر
تم سارے نبیوں کے سرور
سب سے بہتر اُمت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
صلی  اللہ  صلی  اللہ
جتنے سلاطیں پہلے آئے سکّے ان کے ہوگئے کھوٹے 
جاری رہے گا سکہ تیرا صلی اللہ علیک وسلم
پہلے بند میں یہ اشارہ ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تا قیامت جاری رہے گی۔ ’’ختم نبوت‘‘ کے اعزاز کو ’’رب کی اعلیٰ خلافت‘‘ سے یاد کیا گیا ہے۔
دوسرے بند میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی سروری کا ذکر ہے، نیزیہ بیان بھی نظم ہوا ہے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر اُمت والے ہیں۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا فرمائی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ دی گئیں۔ حدیث پاک میں پانچویں خصوصیت یہ بیان ہوئی ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا۔  
(خزائن العرفان : مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادی)
اس میں ہمہ گیری و آفاقیت کا اظہار ہے۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اکملیت و خاتمیت کے پیش نظر اُمت کوبھی بہتر اُمت قرار دیاگیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ  اس کے تحت تفسیر ضیاء القرآن میں درج ہے :
’’اگرچہ پہلی اُمتیں بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر اورایمان باللہ سے مشرف تھیں۔ لیکن جو شان تمہارے امربالمعروف کی ہے جو جلال تمہارے نہی عن المنکر میں ہے اور جو گہرائی، گیرائی اور کمال تمہارے ایمان باللہ میں ہے وہ تم سے پہلے کسی اُمت کو نصیب نہیں ہوا۔‘‘ 
(ضیاء القرآن، جلداول، ص ۲۶۳، مطبوعہ دہلی)
المختصر اس اُمت کی فضیلت بھی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کا فیضان ہے لہٰذا شعر مذکور میں خاتمیت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ ہے۔
آخری شعر کے مصرعۂ ثانی میں’’سکہ جاری رہنا‘‘ محاورہ ہے، جس کے معنی ہیں حکم چلنا /نقش جمنا۔ لاریب ! ہمارے آقا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے سلسلے کا نقش آخر ہیں۔اور آپ کی ملک میں سارا عالم ہے لہٰذا آپ کاسکہ پوری کائنات پر مرتسم ہے۔ آپ کے ہوتے کسی کا سکہ جاری ہونا ممکن ہی نہیں، محال ہے۔
   مزید چند اشعار مطالعہ کریں اور باب ختم المرسلین ﷺ کے ذکرِ جمیل سے دل و دماغ کو مہکائیں اور فکر کو طراوت بخشیں؎
یوں ہی ہیں ماہ رسالت بھی سب نبیوں میں
کرور آنکھوں نہیں بے شمار آنکھوں میں
خدا کی سلطنت کا دو جہاں میں کون دولھا ہے
تم ہی تم ہو، تم ہی تم ہو، یہاں تم ہو وہاں تم ہو
نبیوں میں ہو ایسے نبی الانبیاء تم ہو
حَسینوں میں تم ایسے ہو کہ محبوبِ خدا تم ہو
جو سب سے پچھلا ہو پھر اس کاپچھلا ہو نہیں سکتا
کہ وہ پچھلا نہیں اگلا ہوا اس سے ورا تم ہو
تو شمع رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ
انبیا کو رسائی ملی تم تک
بس تمہاری خدا تک رسائی ہے
شب معراج سے اے سید کل ہو گیا ظاہر
رسل ہیں مقتدی سارے، امام الانبیاء تم ہو
نہ ہوتے تم نہ ہوتے وہ کہ اصل جملہ تم ہی ہو
خبر تھے وہ تمہاری میرے مولیٰ مبتدا تم ہو
پہلے شعر میں ’’ ماہِ رسالت‘‘ کہہ کر تمام انبیا میں آپ کی افضلیت و علوے مرتبت کا روشن بیان ہے۔
  دوسرے شعر میں یہ مضمون باندھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سلطنت کے دولھا رسول اللہ ﷺ ہیں۔مالک کونین ہیں۔ مالکِ دوجہاں ہیں۔ یہاں بھی، وہاں بھی، بلکہ ان کی شان ایسی بلند و ارفع ہے کہ ’’مختارِ کل‘‘ ہیں۔ تاج الشریعہ فرماتے ہیں؎
جہاں بانی عطا کر دیں بھری جنت ہبہ کر دیں
نبی مختارِ کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کر دیں
تیسرے شعر میں دو باتیں ذکرہوئی ہیں: 
(۱) حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو نبیوں کا نبی یعنی ’’نبی الانبیاء‘‘ کہہ کر ’’خاتم الانبیاء‘‘ کہا گیا ہے۔ 
(۲) حسنِ بے داغ کے حوالے سے مقامِ محبوبیت کا بیان ہے- اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ فرماتے ہیں  ؎
مہ بے داغ کے صدقے جاؤں
یوں دَمَکتے ہیں دَمَکنے والے
چوتھے اور پانچویں شعر میں جو مضمون صفحۂ قرطاس پر سجایاگیا ہے اس میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو تمام انبیا سے ورا کہا گیا ہے۔ شانِ اولیت کابھی ذکر جمیل ہے اور ’’ ماہِ نبوت‘‘ اور ’’ شمعِ رسالت‘‘ سے معنون کیا گیا ہے- اور یہ کہ انبیا کی بارگاہِ الٰہی عزوجل تک رسائی کا ذریعہ اور واسطہ حضورﷺ ہیں۔
چھٹے، ساتویں اور آٹھویں شعر میں واقعۂ معراج کے فلسفے پر روشنی پڑتی ہے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا کی امامت فرمائی اور’’ امام الانبیاء‘‘ ٹھہرے، تمام انبیا ے کرام مقتدی، تو کھل گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور یہ فضیلت تمام انبیا کی امامت سے ہی ظاہر ہو جاتی ہے، اور یہ کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم باعثِ تخلیق کونین ہیں۔ تمام انبیاے کرام نے اپنی اپنی اُمت کو خبر دی کہ آخری نبی آتے ہیں اور آپ کا ظہور آخر میں ہوا- حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کیا دل لگتی بات کہہ گئے  ؎
رُسل انھیں کا تو مژدہ سنانے آئے ہیں
انھیں کے آنے کی خوشیاں منانے آئے ہیں
ختم نبوت کا زریں تاج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِ اقدس ہی سجتا ہے، اور تمام انبیاے کرام کی نبوت فیض ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کا، نیز اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اولیت کابھی ذکر ہے ۔
حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے کلام میں عقیدۂ ختم نبوت کے پیش نظر مختلف جہات سے مضامین نظم ہوئے ہیں۔ راقم نے صرف اجمالی جائزہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اور ذہن پر نقش ہونے والے بعض خاکے قرطاس پر ثبت کیے ہیں۔ ضرورت ہے کہ حضور مفتی اعظم مولانا شاہ مصطفیٰ رضا نوریؔ کے کلام کا ادبی و فنی خصوصیات کے ساتھ ہی اسلامی عقائد کے آئینے میں تجزیہ پیش کیاجائے۔ اشعار نوریؔ میں عقائد حقہ کے منور و معتبر تذکرے حق شناسی کا جوہر عطا کرتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ میں ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ کی انفرادیت، افضلیت و اہمیت خوب ظاہر ہوتی ہے۔ اس باب میں نوع بہ نوع مضامین موجود ہیں۔سیرتِ پاک کے ہمہ جہت پہلو بڑے عمدہ انداز میں نظم ہوئے ہیں جن پر پھر کبھی خامہ فرسائی کی جائے گی۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter