قُطبُ الزّمان سیّد علوی مولی الدّویلہ علیہ الرحمہ
قُطبُ الزّمان سیّد علوی مولی الدّویلہ علیہ الرحمہ
ممبرم، ضلع مالاپورام، كيرلا
اللہ تعالی نے نوع انسان کی حیاتِ روحانی کے ساتھ علم شریعت اور اس کے حاملین کی تاریخ کو اس طرح جوڑ دیا ہے کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گیا ہے- ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک جب کبھی بھی طاغوتی قوتوں نے بے دینی و ضلالت کے نئے نئے شعبدے اور کرشمے دکھا کر بھولے بھالے انسان کو اپنی طرف مائل کر کے حصول زر کی دکانیں چمکانے کی کوشش کی تو خدائے لاشریک نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا-
ان مقدس ہستیوں نے اپنے اپنے معجزات اور آسمانی کتابوں کی روشنی میں گمراہی و ضلالت کی گھٹا ٹوپ بھول بھلیوں میں پھنسے انسان کو رشد و ہدایت کا راستہ بتایا اور سرکشوں و متمردین کو ذلت آمیز شکست دی- ان کے بعد ان کے اصحاب و تابعین نے قرآن کریم اور آسمانی صحیفے و احادیث نبویہ کے براہین قاطعہ و دلائل ساطعہ کے ذریعے نئی نئی پیدا ہونے والی شیطانی طاقتوں کو مغلوب کیا-
اولیائے کرام، علماء کرام اور صوفیائے عظام نے اسلامی کتابوں کی تعلیم و تدریس اور اپنے اپنے مواعظ و أخلاق حسنہ اور اہل باطل سے مناظروں، کرامتوں اور دیگر خدمات دینیہ کے ذریعہ دین اسلام کو سینچ- ان حضرات کی بدولت گمراہ لوگوں کو اعمال صالحہ کی توفیق ملی اور انہیں گمراہی و بے دینی کے دلدل سے نکال کر شیطانی طاقتوں کو منتشر کردیا - اولیاء کرام اور صوفیاء عظام نے احیائے دین متین اور اشاعت اسلام کی راہ میں بہت سی مصیبتیں جھیلی صعوبتیں برداشت کیں نامساعد حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا یہاں تک کہ ان کی مساعی جمیلہ نے اپنا رنگ امت مسلمہ پر اچھی سے اچھی صورت میں دکھایا - یہ نفوس قدسیہ اور مقدس ہستیاں جنہوں نے اپنا اوڑھنا عبادت الہی اور بچھونا اتباع سنت بنا لیا تھا- ان ہی میں سے ایک قطب الزمان حضرت سید علوی مولی الدویلہ علیہ الرحمہ کی ذات اقدس ہے-
*تشریف آوری*
سرزمین یمن نے اٹھارہویں صدی میں جن عظیم روحانی، علمی، دینی، ملی اور صوفی ہستیوں کو پیدا کیا ان میں نام نامی اسم گرامی قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ علیہ الرحمہ کا نام سر فہرست نظر آتا ہے- موصوف ایک بلند پایہ کے پیشوائے طریقت اور مقتدائے اصحاب تھے جو صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر تمام اقوام و مِلل کے بلاامتیاز قائد و مرشد اور مصلح تھے-
قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ علیہ الرحمہ کے دینی، مذہبی، سماجی اور سیاسی حالات تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حرفوں سے ہمہ جہات پہلوؤں سے بھری پڑی ہے- یہ ستارہ اپنی پوری آب وتاب شان و شوکت سے جزیرہ رب کے صحراؤں سے گھرے ایک ملک، ملکِ یمن میں اپنی ماں کے شکم اطہر سے دنیا میں نمودار ہوا لیکن اس نے اپنی روشنی سے باشندگان ہند وستان خصوصا 'کیرالا' کے عوام کو فیضیاب کیا- قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ علیہ الرحمہ سرزمین کیرالا کی دھرتی پر "قطب الزمان" کے لقب سے مشہور و معروف ہیں - منبرم مقام کے قریب کڈلنڈی Kadalundi کے کنارے بیٹھ کر پورے کیرالا میں عقیدہء اسلامی کے لعل و گوہر لٹانے لگے-
آپ نے دین اسلام پھیلا کر لاکھوں لوگوں کے دلوں میں کلمہ توحید کی لو روشن کر دیں- آپ کیرالا میں اپنے ماموں جان حضرت سید شیخ حسن جفری صاحب (جو پہلے سے ہی کیرالا کے ضلع کالی کٹ میں مقیم تھے) کی خواہش پر تشریف لائے اور ضلع ملپرم Malappuram کے شہر ترورنگاڈی Tirurangadi کے قصبہ ممبرم کو اپنی قیام گاہ کے طور پر منتخب کیا اور کیرالا کی تہذیب و ثقافت، عادات و اطوار اور یہاں کی زبان پر عبور حاصل کرکے یہاں کے لوگوں کو مسلمان بنا کر دینی، سیاسی، جنگی، ملی اور مذہبی میدان میں قیادت و پاسبانی فرمائی-
*ولادت با سعادت*
قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ علیہ الرحمہ نے 23/ ذی الحجہ 1166/ہجری بروز سنیچر کی خوشگوار رات ایک خوشحال، علمی اور اعلیٰ گھرانے میں يمن کے تريم نام كي جگہ میں اپنی آنکھیں کھولیں اور پرورش پائے - آپ کے والد محترم حضرت سید محمد بن سہل نہایت ہی پرہیزگار، متقی اور بلند پائے کے عالم تھے- آپ کی والدہ سیدہ فاطمہ ایک عابدہ، زاہدہ اور نیک خاتون تھیں یہ حسن جفری کی بہن تھیں-
*حسب و نسب*
آپ نجیب الطرفين تھے - آپ کا سلسلہ مختلف واسطوں سے سید الشہداء، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہوا نور مجسم، فخر بنی آدم، حضور اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے- قطب الزمان تئیسویں پشت میں سے ہے-
*تعلیم و تربیت*
آپ کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا آپ نے اپنے آبائی وطن "تریم، یمن" میں ہی اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی- آپ کی ذہانت و فطانت اور عقلمندی کے چرچے آپ کی چھوٹی عمر میں ہی مشہور و معروف ہو گئے تھے- آپ اپنا بیشتر وقت علم سیکھنے اور عبادات خداوندی میں خرچ کرتے آپ نے صرف آٹھ سال کی عمر میں مکمل قرآن حفظ کر لیا- سب کو صبر، حسن خلق اور تصوف میں روحانی اوصاف کے بچپن سے ہی حامل تھے - آپ کو بچپن سے ہی اپنے ماموں حسن جفری کے پاس آنے کی خواہش تھی یہ تمنا آپ کی عمر کے سترہویں برس میں ملیبار (ملبار، کیرالا) جانے کی اجازت سے پوری ہوئی - شہر 'مکلا' کی بندرگاہ سے ایک تجارتی کشتی میں سوار ہوکر انیس19/ رمضان اٹھارہ سو اسی1880/ ہجری میں کالی کٹ کی سرزمین کو اپنی تشریف آوری سے زینت بخشی-
*اخلاق و عادات*
آپ بچپن سے ہی امتیازی خصائص و شمائل کے حامل تھے اور آپ حسن سیرت و صورت اور شرافت ونجابت میں بلند مقام رکھتے تھے- آپ شریف النفس ہونے کے ساتھ ساتھ کشادہ دستی کے خوگر، فراخدلی، سخاوت و فیاضی، حق گوئی، خوش مزاج، حاجت روائی، اخوت و بھائی چارگی کے علمبردار، صلح پسند، دہشت گردی کے مخالف، امن و شانتی کے پرور، ظلم و استبداد سے متنفر، باہمی اشتراک اور آپسی تعاون کے مربّی، سچائی اور وفاداری کے حقیقی دوست تھے -
بڑوں کا ادب کرتے چھوٹو پر شفقت اور محبت سے پیش آتے کسی بھی غلطی پر نہ ڈانٹتے نہ ڈپٹتے بلکہ بڑے ہی نرم و لطیف انداز میں سمجھاتے- اپنا کام خود کرتے،، دکھ ہو یا سکھ، خوشی ہو یا غم، خوشحالی ہو یا تنگدستی ہر وقت اپنے چہرے پر مسکراہٹ کا پہرا لگائے رہتے تھے-
*خدمات*
روز مرہ کے کاموں میں امربالمعروف ونہی عن المنکر ان کا سب سے پسندیدہ اور اہم مشغلہ تھا- آپ جس زمانہ میں زندگی گزار رہے تھے اس میں کھرے کھوٹے کی تمییز بہت کم ہی پائی جاتی تھیں - برطانوی حکومت آئے دن نِت نئے ٹوٹکے آزما کر مسلمانوں کے عقیدے کو تاش کے پتوں کی طرح تتّر بتّر کر رہی تھی- ان نازک حالات میں آپ دشمنوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر نبرد آزما رہے- آپ نے دین وشریعت کی حمایت میں مخالفین کو دندان شکن جواب دے کر گمراہوں کو چھٹی رات کا دودھ یاد دلادیا- آپ اتنے عمدہ اور بہترین انداز میں نصیحت کیا کرتے تھے کہ بڑے چھوٹے، رئیس فقیر، ادنیٰ و اعلیٰ ہر شخص ان کی نصیحت پر عمل کیے بغیر راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا تھا- نصیحت و گفتگو کرنے کا ان کا ایک خاص انداز تھا جس سے انسیت و شفقت پدرانہ ٹپکا کرتی تھی- دین کی اشاعت، بد مذہبوں کی سرکوبی، ظلم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ان کا خاص وطیرہ تھا -
*ازدواجی زندگی*
قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ علیہ الرحمہ نے چار شادیاں کیں جن سے آپ کے یہاں کئی صاحبزادگان اور اور صاحبزادیاں پیدا ہوئیں- آپ کا پہلا نکاح گیارہ سو اسی 1180/ہجری ربیع الاول میں ہوا- آپ کے ماموں سید شیخ جفری نے نے قاضی جمال الدین صاحب کی موجودگی میں اپنی بیٹی "سیدہ فاطمہ" کا نکاح آپ سے کیا- شادی کے وقت آپ کی عمر سترہ برس اور سیدہ فاطمہ کی پندرہ برس تھی - ان سے آپ کو دو صاحبزادیاں پہلی سیدہ شریفہ علویہ اور دوسری شریفہ کنجی بی بی ہوئیں - شریفہ علویہ کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا جبکہ شریفہ کنجی بی بی کا عقد مبارک سید علی بن احمد جفری سے قرار پایا-
دوسری شادی ابوبکر مدنی کوئیلانڈی Quilandi کی پاکباز اور نیک بیٹی فاطمہ نامی سے ہوئی ان سے ایک صاحبزادہ سید فضل پوکویا تنگل پیدا ہوئے-
تیسری شادی نیک سیرت عائشہ تانوری ملیباری سے ہوئی جن کے بطن مبارک سے دو صاحبزادیاں فاطمہ اور صالحہ نے جنم لیا-
چوتھی شادی اندونیشیا کی نہایت ہی تقوی شعار، پاکباز، زاہدہ، عابدہ، سیدہ صالحہ تیموری سے ہوئی- "تنگل Tangal" کیرالا میں سید گھرانے کو کہا جاتا ہے-
*وفات*
یہ عظیم ہستی جو کئی جہات سے ہمارے لیے قابل تقلید تھی اس دنیائے فانی سے 7/ محرم الحرام 1260ھ بروز اتوار بمطابق 24/چوبیس فروری 1845/عیسوی کو كيرالا میں ضلع مالاپورام کے ممبرم میں اپنے مالک حقیقی سے جاملی-
-انا للہ و انا الیہ راجعون-
آپ ستہتر برس تک ہری بھری سرسبزوشاداب سرزمین کیرالا میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں مگن رہے- بارہ سو انسٹھ 1259ھ میں "چیرور Cherur" نامی مقام پر انگریزوں سے محاذ آرائی کرتے ہوئے آپ کے پیر مبارک پر گولی لگ جانے کی وجہ سے ایک زخم ہوگیا تھا- بظاہر یہ زخم ہی آپ کے علیل ہونے کا سبب بنا اور پھر اس دنیا سے پردہ فرمانے کا بھی- آپ کی نماز جنازہ سب سے پہلے آپ کے جانشین صاحبزادے "حضرت سید فضل پوکویا تنگل" اس کے بعد "اوکویا ابوبکر مسلیار" نے آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل کیا –
آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی لوگوں کو ہجوم آپ کی آخری زیارت کے لئے آتا رہا - جس کی وجہ سے آپ کو 8/محرم الحرام کو جوار حسن جفری میں مدفون کیا گیا - آج بھی آپ کا مزار اقدس مرجع خلائق بنا ہوا ہے- ضرورت مندوں، عقیدت مندوں، حاجت مندوں اور پریشان حال لوگوں کی بھیڑ ہر وقت آپ کے مزار مبارک پر لگی رہتی ہے- آپ کا عرس شریف ہر سال یکم محرم سے 7/محرم تک بڑے ہی تُزک و احتشام کے ساتھ عظیم الشان پیمانے پر منایا جاتا ہے-
یہ عرس جنوبی ہند کی عظیم درسگاہ، دینی و عصری علوم کی آماجگاہ جامعہ دارالھدی اسلامیہ کے زیر اہتمام منعقد کیا جاتا ہے-