انسان کی اپنی حقیقت سے بےخبری؟
محترم قارئین! موجودہ عہداِنتہائی ترقی یافتہ عہد ماناجاتاہے۔ شاید ہی کوئی لمحہ ایساہو کہ جب ہم جدید ترین ٹکنالوجی اورنئی نئی ایجادات سے واقف نہ ہوتےہوں۔ لیکن اِن تمام اِنسانی ترقیوں اور حصولیابیوں کے باوجود ہم آپسی تعلقات واَخلاقیات کے اعتبار سے اِنتہائی پست ہوچکے ہیں، مثلاً: آج ہم ایک نشست گاہ (Waiting Room) اور قیام گاہ (Regidence) پرہوتےہوئےبھی ایک دوسرے سے ناآشناہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک اِنسان بدحال پڑا تڑپ رہاہوتا ہے مگر اُس کے دکھ-درد کی فکر کرنےکی بجائےہم اُس کی وِیڈیو کلپ بنانے میں مست اورمگن رہتےہیں۔ جب کہ اللہ سبحانہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مدد کا معاملہ رکھنے کا حکم دیتا ہےاور ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے پرہمیں متنبہ فرماتا ہےکہ ’’اے انسان! تمھیں کیا ہوگیا ہےکہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔‘‘ (سورۂ صافات:25)
پھر ایک طرف ایک اِنسان ہمارے پڑوس میں کھانے-پینے کو تَرس رہا ہوتاہےاوردَانے دانے کو محتاج رہتاہے لیکن دوسری طرف ہمارے گھروں میں ایک سے بڑھ کر ایک مرغن غذائیں خراب ہوجاتی ہیں، سڑ -گَل جاتی ہیں اورہمیں توفیق نہیں ہوتی کہ کچھ اپنے پڑوس میں بھجوادیں۔ باوجودیکہ حدیث پاک میں واضح طورپرہےکہ’’وہ مومن نہیں ہے جو خود تو بھرپیٹ کھائے اور اُس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔‘‘(الادب المفرد، حدیث:112)
مزید اَگر کبھی حکومت/ انتظامی اُمور کی باگ-ڈورہمارے ہاتھوں میں آجاتی ہے، تو ہم فرعونِ وقت بن جاتےہیں۔ نیزیہ جانتے ہوئے کہ ہمارے پاس جو کچھ اِختیارات ہیں وہ سب چند رُوزہ اور کرائے کے ہیں، پھر بھی اللہ سبحانہ کی مخلوق ہمیں کیڑے-مکوڑے کے سوا کچھ نظر نہیں آتی۔ کیوں کہ ہمارے قلب وجگر میں نہ تواَللہ سبحانہ کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی ہمارے پاس حیا ہوتی ہے۔ حالاں کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ ہماری حیثیت کیا ہے، ہماری بساط اور ہماری حقیقت کیا ہے؟ اورجسےقرآن کریم میں کچھ اِس طرح بیان کیا گیا ہےکہ’’بے شک اِنسان پر ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہےکہ وہ کوئی قابلِ ذِکر چیز ہی نہ تھا۔ ہم نے اُس کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔‘‘(سورۂ دہر:1-2)
ایک جگہ یوں اِرشاد ہواکہ’’ اِنسان کو غور کرنا چاہیےکہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ پانی کےایک قطرےسے پیدا کیا گیا ہے جو پُشت اور کولہے کی ہڈیوں کے بیچ سےگزر کر باہر نکلتا ہے۔‘‘(سورۂ طارق:5-7)
گویا ایک زمانہ ایسا تھاکہ ہم انسانوں کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی اور ہم مرد-عورت کےایک مخلوط نطفے سے وجود میں آئے ہیں، لہٰذا اِس چند رُوزہ اوراُدھارکےوجود پر اِترانا ہمارے لیےاِنتہائی نادانی اورسخت ناعقلی ہے۔ پھر ہم اِنسانوں کو یہ بھی یاد رَکھنا چاہیےکہ جوعظیم ویکتا ذات اِس پر قادرہے کہ وہ ایک مخلوط نطفے سے ہم انسانوں کی ایک وسیع وعریض دنیا وجود میں لادے ،تو بدرجہ اَولیٰ وہ اِس پر بھی قادر ہے کہ اِنسانوں کو پھر سےخاک میں ملادےاور دوبارہ اُن کو اُٹھاکراُن سے اُن کے کیےکا حساب لے،کیوں کہ جب وہ آسمان پھاڑ سکتا ہے، ستارے بکھیرسکتا ہے اور قبریں زِیروزَبر کرسکتا ہے،تووہ ہمارے ساتھ بھی جوچاہے معاملہ کرسکتاہے۔ چناں چہ اے انسان! تجھے غفلت اور دھوکے میں ہرگز نہیں رہنا چاہیے،اوراَے انسان!کس چیزنےتجھے اپنے کرم کرنے والےرب کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا،جس نے تجھےپیدا کیا، پھرٹھیک بنایا، پھرہموار فرمایا،جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دے دیا۔ (سورۂ انفطار:6-8)
پھراُس نے پوری دنیا تیری مٹھی میں ڈال دی مگر تو اَپنے رب کریم کے اِس فضل وکرم اوراِحسان کو تسلیم کرنے اور اُس کی رضا و خوشنودی کا خیال رکھنے کی بجائے اپنی خواہشات وشہوات کے سمندر میں ڈوب گیا، یہاں تک کہ اپنے چھوٹے-موٹےفائدے کے لیے اللہ کی مخلوق کو تہہ تیغ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ حالاں کہ تجھے خوب معلوم ہے کہ’’ جوشخص اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگا اُس کا معاملہ حدسے بڑھ گیا‘‘ (سورۂ کہف:28)
یہ تو عام اور دنیا داراِنسانوں کی بات ہے، لیکن اگرغوروفکر کیا جائے تومحسوس ہوگاکہ آج ہم نام نہادخواص اوررَسماً دین دارکہے جانے والےعلما بھی اَحکام اِلٰہیہ کی دھجیاں اُڑانے میں پیچھے نہیں ہیں، بلکہ بات بات پر ایک- دوسرے کے خلاف صف آرا ہونا ہماری آن -بان اورشان بن گئی ہے (اِلاماشاءاللہ)۔ ہمیں دوسروں کی آنکھوں میں موجود تنکا تو بخوبی دِکھ جاتا ہے مگراَپنی ہی آنکھوں میں موجود شہتیر نظر نہیں آتا۔ جب ہم علمی وتحقیقی تنقید کرنے پراُترجاتے ہیں تو اَپنے مخالفین کی بخیہ اُدھیڑکر رَکھ دیتے ہیں لیکن جب ہم پر تنقید کی جاتی ہے تو اَپنا محاسبہ کرنے کے بجائےہم مخالفین کو ہی اَخلاقیات کا درس دینے لگتے ہیں۔ جو باتیں ہم اپنے اَسلاف اور مشائخ کی شان میں اِنتہائی گستاخی سمجھتے ہیں اورجنھیں برداشت کرنے کے لیے ہم قطعی تیار نہیں ہوتے، وہی باتیں دوسروں کے اَسلاف اورمشائخ کی شان میں کہتے ہوئے ہم فخرمحسوس کرتے ہیں،بلکہ بسااوقات مخالفین کی تنقید کوبالعموم ہم بدبختانہ قرار دیتے ہیں اور اَپنی تنقید کو جرأت مندانہ قدم، جب کہ یہ دونوں باتیں ملی ومعاشرتی یا دینی سطح پرکسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں۔
مزید جس ذات-برادری کو رَب کریم جل شانہ نے ہمارے لیے محض خاندانی شرافت اورشناخت وتعارف کا ایک ذریعہ بنایاہےآج اُسی کے پردے میں مقابلہ آرائی کے بطور ایک دوسرےپرفخروتفاخراَور اَپنی برتری کااِظہارکرتے ہوئے نہیں تھکتے، بلکہ ایک دوسرے کو حقیر ورَذیل سمجھنا ہم اپنا فرض منصبی اورحق سمجھتے ہیں جب کہ اِس سے پرہیز کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ کیوں کہ حدیث پاک میں ہے،ایک بار حضرتِ ابوذرغفاری نے حضرت بلال کو کہا:’’اے کالی کلوٹی ماں کے بیٹے! اب تو بھی میری غلطیاں نکالےگا ؟جب یہ معاملہ بارگاہِ نبوی میں پہنچا تو یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ نے فرمایا: ابوذر! کیا تم نے بلال کو ماں کی عار دلائی؟ تمہارے اندر کی جہالت اَب تک نہ گئی!!
اتنا سننا تھا کہ حضرت ابوذر یہ کہتے ہوے رونے لگے: یا رسول اللہ! میرے لیے دعائے مغفرت فرمائیں، اور پھر روتے ہوے مسجد سے نکلے، باہر آکر اپنا رخسار مٹی پر رکھ دیا اور حضرت بلال سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: ’’بلال! جب تک تم میرے رخسار کو اَپنے پاؤں سے نہ روند دو گے، میں اِسے مٹی سے نہ اُٹھاؤں گا، یقیناً تم معزز و محترم ہو اَور میں ذلیل و خوار!!
یہ دیکھ کرسیدنابلال بھی رونےلگے اور جناب ابوذر کے رخسار کو چوم لیا اور بے ساختہ گویا ہوئے: واللہ! میں اُس رخسار کو کیسے روند سکتا ہوں جس نے ایک بار بھی اللہ سبحانہ کو سجدہ کیا ہو، پھر دونوں گلے ملے اور دیر تک روتےرہے۔ ( صحیح بخاری، حدیث :31 )
مزید اِرشاد رَبّانی ہے:’’اے لوگو! ہم نے تمھیں مرد اَور عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا، تاکہ تم ایک-دوسرے کو پہچان سکو۔ بےشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہےجوتم میں زیادہ پرہیزگارہو، بےشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ (سورۂ حجرات:13)
لہٰذا اِحساسِ برتری اَور کسی کو حقیر وکمتر سمجھنے سے بہرحال بچنا چاہیے اور یہ اَزبر کرلینا چاہیے کہ شرافت کا صحیح معیار تقویٰ وپرہیزگاری ہے،محض خاندان اورقومیت نہیں ۔